بھارت میں ’بچہ دانی کرائے پر دستیاب‘ نہیں رہے گی
6 نومبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حالیہ کچھ برسوں میں دنیا بھر سے ہزاروں جوڑے بھارت میں عورتوں کے رحم اپنے بچوں کی پیدائش کے لیے حاصل کرتے رہے ہیں اور سیروگیسی کی یہ صنعت کئی ملین ڈالر کی آمدن کا باعث ہے، تاہم بھارتی حکومت کی جانب سے اس عمل پر پابندی کا منصوبہ سامنے آنے کے بعد بے اولاد جوڑوں نے بھارت جانے سے کترانا شروع کر دیا ہے۔
بھارت کا شمار دنیا کے ان گنے چنے ممالک میں ہوتا ہے، جہاں نہایت ماہر ڈاکٹروں اور کم سرمایے کے ذریعے بے اولاد جوڑے اپنے بچے پیدا کرنے کے لیے خواتین کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کا تاہم یہ بھی کہنا ہےکہ اس صنعت سے متعلق باقاعدہ قواعد و ضوابط موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ بحث بھی عام ہے کہ اس کے ذریعے غریب خواتین کا استحصال ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے 25 ہزار غریب خواتین کے استحصال کی خبریں آنے کے بعد حکومت پر بھی دباؤ ہے کہ وہ اس سلسلے میں قواعد و ضوابط وضع کرے۔ اس عمل میں بے اولاد جوڑے اپنے ایمبریو ان خواتین کے رحموں میں رکھوا دیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بھارتی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ وہ ایسے قوانین بنانے میں مصروف ہے، جس کے ذریعے اس عمل کا تجارتی استعمال ممنوع ہو جائے گا۔ اس سلسلے میں بھارت میں کام کرنے والے 350 کلینکس کو بھی نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ’غیرملکیوں کو خدمات نہ دی جائیں۔‘
اس حکومتی اعلان کے بعد اس صنعت سے جڑے ماہر ڈاکٹروں کی جانب سے شدید صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے، جب کے اس عمل میں شامل عورتوں کی جانب سے بھی حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے اور اس صنعت سے متعلق سخت قواعد وضع نہ کرے۔
اس عمل میں معاونت کرنے والے ایک ماہر بھارتی ڈاکٹر نانیا پٹیل کا کہنا ہے، ’’غیرملکیوں کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کیوں؟ ہم سب انسان ہیں۔‘‘
بھارتی ریاست گجرات میں اکانکشا کلینک کے سربراہ پٹیل کا مزید کہنا ہے، ’’میں گزشتہ 11 سال سے یہ خوبصورت انتظام کر رہا ہوں۔ اس پر پابندی تو کوئی حل نہ ہوا۔‘‘
اس بھارتی اعلان کی وجہ سے غیرملکی جوڑے تذبذب کا شکار ہیں اور خصوصاﹰ ایسے جوڑوں کو سخت پریشانی کا سامنا ہے، جو اس عمل کا آغاز کر چکے ہیں اور ان کے بچے مختلف خواتین کے رحموں میں پرورش پا رہے ہیں۔