بھارت میں ذہنی مریضوں کی تعداد میں اضافہ
22 اپریل 2017موقر جریدے ’انڈین جرنل آف سائکیٹری‘میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں کیے گئے سروے سے پتا چلا ہے کہ ڈیپریشن اور دیگر ذہنی امراض کے شکار ہر بیس افراد میں سے صرف ایک کا ہی علاج ہو پاتا ہے۔
یہ سروے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) دہلی اور آرمڈ فورسز میڈیکل کالج پونے جیسے بھارت کے متعدد مشہور اسپتالوں نے کرائے۔ اس سروے میں قریب پچیس ہزار افراد شامل تھے۔ اس ریسرچ ٹیم میں شامل ایمس میں شعبہ امراض نفسیات کے پروفیسر ڈاکٹر راجیش ساگر کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں یہ تو معلوم تھا کہ ذہنی بیماری اور اس کے علاج کے درمیان کافی خلیج ہے، تاہم یہ خلیج ہماری توقع سے بہت زیادہ، یعنی تقریباً 95 فیصد ہے۔ ہر سو افراد میں سے صرف پانچ کا ہی علاج ہوپاتا ہے۔‘‘
دریں اثنا ایک دیگر رپورٹ ’گلوبل برڈن آف ڈیزیز اسٹڈی‘ کے مطابق بھارت میں 58 ملین سے زیادہ یا 4.5 فیصدافراد ڈیپریشن کا شکار ہیں۔ سن 2015 میں ڈیپریشن بھارت میں موت کے منہ میں جلد چلے جانے کی دسویں سب سے بڑی وجہ رہی جب کہ سن 2005 میں یہ بارہویں نمبر پر تھی۔ ڈیپریشن کا مرض بھارتی مردوں (3.6 فیصد) کے مقابلے عورتوں(5.1 فیصد) میں زیادہ عام ہے۔ یہ نہایت تشویش کی بات ہے کہ پندرہ تا انیس برس کی عمر گروپ کے افراد میں ڈیپریشن اور دیگر دماغی بیماریوں کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین مدد یا علاج کے معاملے میں بھی مردوں سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ڈیپریشن کا شکار افراد اپنی پریشانی کا ذکر کرنے میں جھجھک محسوس کرتے ہیں اور ان کے ارد گرد رہنے والے افراد کے لیے بھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ساگر کا کہنا تھا کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت میں مردوں کی طرح خواتین کی صحت کو مساوی ترجیح نہیں دی جاتی ہے۔
دوسری طرف بھارت میں آج بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد ہے جو یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ڈیپریشن کوئی بیماری ہے جس کا علاج کیا جاسکتا ہے۔ بھارت کے نیشنل مینٹل ہیلتھ سروے کے مطابق چار میں سے تین افراد کے شدید ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود علاج میں زبردست خلیج ہے۔ 80 فیصد سے زیاد ہ افرادکو ایک سال سے زیاد ہ عرصے سے بیمار رہنے کے باوجود کسی طرح کا علاج نہیں مل سکا۔ حکومت نےسن 1996 میں ڈسٹرکٹ مینٹل ہیلتھ پروگرام شروع کیا تھا جس کا مقصد مرض کا ابتدا میں پتہ لگاکر علاج فراہم کرنا نیز عام ڈاکٹروں کو نفسیاتی امراض کے علاج کے لئے مختصر مدتی تربیت دینا اور عوامی بیداری پیدا کرنا تھا۔ تاہم یہ پروگرام ملک کے 707اضلاع میں سے اب تک صرف 200 اضلاع تک ہی پہنچ سکا ہے۔
گوکہ سرکاری ضابطہ کے مطابق ہر ایک لاکھ آبادی پر ایک ماہر نفسیات اور1.5کلینیکل سائیکالوجسٹ ہونے چاہییں تاہم یہ تعداد بالترتیب صرف 0.3 فیصداور 0.7 فیصد ہے۔ صحت اور خاندانی بہبود کے وزیر نے بھارتی پارلیمان میں دسمبر 2015 میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ملک میں صرف 3800 ماہرین نفسیات اور 898 کلینیکل سائیکالوجسٹ ہیں۔
مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ بھارت میں مینٹل ہیلتھ کیئر پر صحت بجٹ کا صرف 0.06 فیصد ہی خرچ کیا جاتا ہے جو بنگلہ دیش (0.44 فیصد) سے بھی کم ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی سن 2011 کی ایک رپورٹ کے مطابق بیشتر ترقی یافتہ ممالک اپنے بجٹ کا چار فیصد سے ز یادہ دماغی صحت کی تحقیق، انفرااسٹرکچر، فریم ورک اور صلاحیت تیار کرنے پر خرچ کرتے ہیں۔
بہر حال ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ بھارتی پارلیمان نے گذشتہ ماہ مینٹل ہیلتھ کیئر بل کو منظوری دے دی۔ جو صدر پرنب مکھرجی کی توثیق کے بعد سات اپریل سے قانون کی شکل میں نافذ ہوچکا ہے۔گوکہ اس قانون پر ماہرین کی رائیں مختلف ہیں، تاہم اسے دماغی امراض کے متاثرین کی صحت کے حوالے سے ایک اچھا قدم قراردیا جارہا ہے۔ اس قانون میں دماغی امراض میں مبتلا افراد کے اقدامِ خودکشی کو اب جرم کے دائرہ سے خارج کردیا گیاہے۔