بھارتی عدالتوں میں تقریباً پانچ کروڑ مقدمات زیر التوا
2 مئی 2022وزیراعظم نریندر مودی اور متعدد ریاستوں کے وزرائے اعلی کی موجودگی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنّا نے کہا کہ اس وقت بھارتی عدالتوں کو ججوں کی سخت کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا، "دس لاکھ افراد کے لیے ہمارے پاس صرف 20جج ہیں، جو بڑھتی ہوئی مقدمے بازی کو سنبھالنے کے لیے ناکافی ہیں۔"
چار کروڑ 70 لاکھ مقدمات زیر التوا
نریندر مودی حکومت نے گزشتہ ماہ بھارتی پارلیمان میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ ملک میں 4 کروڑ 70 لاکھ مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 70154 صرف سپریم کورٹ میں ہیں۔ ملک کی 25 ہائی کورٹوں میں 58 لاکھ 94 ہزار 60 مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ زیریں عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد چار کروڑ 10 لاکھ 47 ہزار 976ہے۔ ان میں اروناچل پردیش، لکش دیپ اور انڈمان و نکوبار جزائر کے اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں۔
مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کا کہنا تھا، "عدالتوں میں مقدمات کو وقت پر نمٹانا بہت ساری باتوں پر منحصر ہوتا ہے۔ ان میں ججوں اور عدالتی حکام کی مناسب تعداد، انفرااسٹرکچر، حقائق کی پیچیدگی، ثبوتوں کی دستیابی، فریقین کا تعاون اور ضابطوں اور طریقہ کار پر عمل درآمد شامل ہیں۔"
بھارت کے پالیسی ساز حکومتی ادارے نیتی آیوگ نے سن 2018 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ جس رفتار سے عدالتوں میں مقدمات کو نمٹایا جا رہا ہے اس لحاظ سے زیر التوا مقدمات کو نمٹانے میں 324 برس سے زیادہ کا وقت لگے گا۔ سن 2018 میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 2.9 کروڑ تھی۔ ان میں 65 ہزار 695 کیسز ایسے تھے، جو 30 برس سے بھی زیادہ پرانے تھے۔
اصلاحات کے لیے سخت اقدامات ضروری
بھارت کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں زیر التوا مقدمات کو نمٹانے اور عدالتی نظام میں عوام کا اعتماد بحال کرنے کیے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
وینو گوپال کا کہنا تھا، "انصاف کی فراہمی کا نظام کس قدر تباہ حال ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں کسی بھی کیس کے زیر التوا کی اوسط مدت زیریں عدالتوں میں آٹھ برس ہے، اس کے بعد مزید آٹھ برس یہ ہائی کورٹوں میں زیر التوا رہتے ہیں۔آخر عوام کا انصاف کی فراہمی کے نظام پر اعتماد کیسے برقرار رہے گا؟"
اٹارنی جنرل وینوگوپال کا کہنا تھا کہ اس امر کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ کسی ملزم کے خلاف کیس کا فیصلہ ہونے سے قبل اسے اتنی مدت جیل میں گزارنی نہ پڑے جو اس کے جرم کی سزا ہو سکتی تھی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر وکاس سنگھ کا کہنا تھا کہ 76 فیصد زیر سماعت قیدی انتہائی غریب ہوتے ہیں ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ کیس لڑ سکیں جس کی وجہ سے وہ جیل میں سڑتے رہتے ہیں۔
ڈیجیٹلائزیشن کی کمی بھی ایک سبب
ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ بھارت میں عدالتی فیصلوں کی سست رفتاری کا ایک بڑا سبب ڈیجیٹلائزیشن کا نہ ہونا بھی ہے۔
قانونی امور پر نگاہ رکھنے والے بھارتی صحافی سندیپن دیب کا کہنا ہے، "ہمارا عدالتی نظام ان شعبوں میں سے ایک ہے، جہاں سب سے کم ڈیجیٹلائزیشن ہوئی ہے۔ سن 2019 کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سپریم کورٹ کا ہر جج سال میں اے 4 سائز کا 4.8 کروڑ کاغذ استعمال کرتے ہیں۔"