1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں مذہبی بنیاد پر بڑھتی ہوئی معاشرتی خلیج

5 مارچ 2020

بھارتی دارالحکومت میں حالیہ مذہبی فسادات کے بعد معاشرتی خلیج بالخصوص شہروں میں مزید گہری ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ خیال کیا گیا ہے کہ ہندووں اور مسلمانوں میں عدم اعتماد بھی پیدا ہونا شروع شروع ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Yu6v
ndien Neu Delhi Proteste gegen Staatsbürgerschaftsgesetz
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بھارتی شہروں میں ہندووں اور مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کی وجہ سے اقلیتوں اور غریبوں کے لیے اپنی پسند کے علاقوں میں مکان حاصل کرنا دشوار ہوتا جارہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں گذشتہ 23 فرور ی کوبھیانک مذہبی فسادات پھوٹ پڑے تھے۔

یہ گذشتہ کئی عشروں کے دوران قومی دارالحکومت کے بدترین فسادات تھے۔ ان میں تقریباً پچاس افراد ہلاک اور سینکٹروں دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں ہندو اور مسلما ن دونوں ہی شامل تھے لیکن مسلمانوں کی تعداد ہندووں کے مقابلے میں بہر حال کئی گنا زیادہ تھی۔

حقوق انسانی کے لیے سرگرم کارکن میلون کوٹھاری کا کہنا ہے کہ دہلی کے حالیہ فسادات کے بعد دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے قومی دارالحکومت میں بھی اب ممبئی اور احمد آباد جیسے بھارت دیگر فساد زدہ شہروں کی طرح ہی مذہبی بنیادوں پر تقسیم دیکھنے کو ملے گی۔

Indien Fotoreportage aus Neu Delhi nach den Ausschreitungen
نئی دہلی فسادات کے دوران مسلمانوں کی دکانوں اور مکانوں کو خاص طور پر تباہ کیا گیاتصویر: DW/T. Godbole

کوٹھاری کہتے ہیں، ”کسی بھی شہر میں فساد کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت والی بستیوں میں منتقل ہونے لگتے ہیں اور بعض اوقات شہری حکام بھی ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں جن میں لوگ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ رہنے کے بجائے اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے علاقوں میں ہی رہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔“

کوٹھاری کا خیال ہے ”سیاسی، منصوبہ بندی اور الگ الگ طبقات کی بنیاد پرتفریق پر مبنی شہرقائم ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے  مذاہب کے درمیان خلیج میں مزید اضافہ ہو

رہا ہے،غریب مزید غریب ہوتے جارہے ہیں اورایسے میں کمزور طبقات کو نشانہ بنانا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔“

قومی دارالحکومت دہلی میں ملک بھر سے او ربالخصوص تمام پڑوسی ریاستوں سے لوگ بڑی تعداد میں تلاش معاش کے لیے آتے ہیں۔ ان لوگوں کو مجبوراً کچی بستیوں میں رہائش اختیار کرنی پڑتی ہے کیوں کہ آسودہ افراد کے علاقوں میں مکانوں کے کرائے ان کی آمدن سے باہر ہوتے ہیں۔

Tausende bangladeschische Muslime protestieren gegen Gewalt in Indien
شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہزہ کرتے بھارتی مسلمانتصویر: Reuters/M .P. Hossain

احمد آباد یونیورسٹی کی پروفیسر درشنی مہادیویا کہتی ہیں کہ سن 1992-93 کے ممبئی مذہبی فسادات ہوں یا گجرات کے سن 2002 کے بھیانک فسادات، مسلمانوں کو مخلوط آبادی والے علاقوں کے بجائے شہر کے باہر رہنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ وہ کہتی ہیں،” بالخصوص غریب مسلمان خوف اور عدم تحفظ کی وجہ سے مسلم اکثریتی بستیوں میں ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔“

پروفیسر درشنی کہتی ہیں ”مختلف مذہبی گرہوں کے الگ الگ تھلگ رہنے سے سیاسی اسباب کی بنا پر مذہب کو بڑھاوا ملتا ہے۔“ اس حوالے سے وہ بھارت کے مغربی صوبہ گجرات کے ایک قانون کا حوالہ دیتی ہیں جس کے مطابق حساس علاقوں میں مسلمان اور ہندو ایک دوسرے کو اپنی جائیداد فروخت نہیں کرسکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مسلم علاقوں میں عام طورپر انفرااسٹرکچر کی حالت بہت خراب ہوتی ہے اور وہاں اچھے اور مناسب مکانات بھی نہیں ہوتے۔

مصنفہ اور صحافی غزالہ وہاب کہتی ہیں کہ بہت سے مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی بستی میں رہیں یا مخلوط آبادی میں۔ غزالہ کہتی ہیں کہ اب کسی بھی خاندان کو اپنے لیے گھر کا انتخاب کرنے سے پہلے اکثریہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ اسے بہتر زندگی چاہئے یا ایسا گھر جس کو نذر آتش کیے جانے کا خطرہ کم سے کم ہو۔

ج ا ⁄ ع ح (روئٹرز)