بھارت میں مزدور غلام بچوں کی تعداد ’لرزہ خیز‘ حد تک زیادہ
23 دسمبر 2016تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق مغربی برانڈز کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی ان فیکٹریوں میں بچوں سے لی جانے والی جبری مشقت کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات اور کنٹرول کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کی کی تنظیم انڈیا کمپنی آف دی نیدرلینڈز (ICN) کے مطابق تامل ناڈو میں واقع قریب نصف فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوں سے بات چیت کی گئی، جس سے معلوم ہوا، کہ ملک میں ٹیکسٹائل صنعت کی اس سب سے بڑی برآمد کنندہ ریاست میں حالات کس قدر سنگین ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ریاست میں واقع ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں سے نصف یعنی قریب 734 کارخانوں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق وہاں کام کرنے والی زیادہ تر لڑکیوں کی عمریں 14 تا 18برس ہیں جب کہ بیس فیصد ایسی لڑکیاں بھی ان فیکٹریوں میں کام کر رہی ہیں، جن کی عمر ابھی 14 برس بھی نہیں ہوئی۔
رپورٹ کے مطابق ان کارخانوں میں مزدوروں کو زبردستی طویل وقت تک کام کرایا جاتا ہے، جب کہ انہیں کمپنی کے بنائے گئے ہاسٹلز میں رکھا جاتا ہے اور انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔
آئی سی این کے ڈائریکٹر گیرارڈ اونک کا کہنا ہے، ’’ہم پانچ سال سے یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں، مگر ہمارے لیے بھی اس مسئلے کی شدت لرزہ خیز ہے۔‘‘
تامل ناڈو کی ٹیکسٹائل صنعت کی ایسوسی ایشن کے مشیرِ اعلیٰ وینکاتاچالم کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کسی تحقیقی رپورٹ سے آگاہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاسی حکومت نے حال ہی میں مدراس کی ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست بھر میں کسی بھی صنعت میں ایسا کوئی معاملہ اب موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔
بھارت ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے برآمدکنندہ ممالک میں سرفہرست ہے، جب کہ اس کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایسی 16 فیکٹریاں قائم ہیں، جہاں دو تا چار لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق مقامی کارخانے قریبی دیہات سے کم اجرت پر مزدوروں کو اپنے ہاں بھرتی کرتے ہیں اور مغربی ممالک میں فروخت ہونے والے ان ملبوسات اور کپڑوں کی تیاری کے درپردہ بہت سے مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔