1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں مزدور غلام بچوں کی تعداد ’لرزہ خیز‘ حد تک زیادہ

عاطف بلوچ، روئٹرز
23 دسمبر 2016

بھارت میں غلامی کی مختلف قسمیں، بہ شمول بچوں کی جبری مشقت خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ روئٹرز کے مطابق بھارت کے جنوب میں نوے فیصد ٹیکسٹائل فیکٹریاں بچوں کو بہ طور غلام کام کروا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/2UlyV
Kinderarbeit Indien
تصویر: AP

تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق مغربی برانڈز کے لیے ملبوسات تیار کرنے والی ان فیکٹریوں میں بچوں سے لی جانے والی جبری مشقت کے خاتمے کے لیے سخت اقدامات اور کنٹرول کی ضرورت ہے۔

انسانی حقوق کی کی تنظیم انڈیا کمپنی آف دی نیدرلینڈز (ICN) کے مطابق تامل ناڈو میں واقع قریب نصف فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوں سے بات چیت کی گئی، جس سے معلوم ہوا، کہ ملک میں ٹیکسٹائل صنعت کی اس سب سے بڑی برآمد کنندہ ریاست میں حالات کس قدر سنگین ہیں۔

اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس ریاست میں واقع ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں سے نصف یعنی قریب 734 کارخانوں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق وہاں کام کرنے والی زیادہ تر لڑکیوں کی عمریں 14 تا 18برس ہیں جب کہ بیس فیصد ایسی لڑکیاں بھی ان فیکٹریوں میں کام کر رہی ہیں، جن کی عمر ابھی 14 برس بھی نہیں ہوئی۔

Symbolbild Asien Kinderarbeit Indien
بھارتی میں بچوں سے لی جانے والی جبری مشقت ایک بڑا مسئلہ ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/A. Nath

رپورٹ کے مطابق ان کارخانوں میں مزدوروں کو زبردستی طویل وقت تک کام کرایا جاتا ہے، جب کہ انہیں کمپنی کے بنائے گئے ہاسٹلز میں رکھا جاتا ہے اور انہیں جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔

آئی سی این کے ڈائریکٹر گیرارڈ اونک کا کہنا ہے، ’’ہم پانچ سال سے یہ معاملہ اٹھا رہے ہیں، مگر ہمارے لیے بھی اس مسئلے کی شدت لرزہ خیز ہے۔‘‘

تامل ناڈو کی ٹیکسٹائل صنعت کی ایسوسی ایشن کے مشیرِ اعلیٰ وینکاتاچالم کا کہنا ہے کہ وہ ایسی کسی تحقیقی رپورٹ سے آگاہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاسی حکومت نے حال ہی میں مدراس کی ہائی کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست بھر میں کسی بھی صنعت میں ایسا کوئی معاملہ اب موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ختم ہو چکا ہے۔

بھارت ٹیکسٹائل اور ملبوسات کے برآمدکنندہ ممالک میں سرفہرست ہے، جب کہ اس کی جنوبی ریاست تامل ناڈو میں ایسی 16 فیکٹریاں قائم ہیں، جہاں دو تا چار لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق مقامی کارخانے قریبی دیہات سے کم اجرت پر مزدوروں کو اپنے ہاں بھرتی کرتے ہیں اور مغربی ممالک میں فروخت ہونے والے ان ملبوسات اور کپڑوں کی تیاری کے درپردہ بہت سے مزدوروں کا استحصال ہوتا ہے۔