1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں میڈیا کتنا آزاد ہے؟

9 مارچ 2011

بھارت یوں تو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔ یہاں کئی بڑے میڈیا ہاؤسز ہیں، سینکڑوں ٹیلی وژن چینل ہیں اور ہزاروں اخبارات شائع ہوتے ہیں۔ مغربی ملکوں کے متعدد میڈیا اداروں کے جنوبی ایشیا کی بیوروز بھی بھارت میں ہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/10VoM
بھارت میں مختلف زبانوں کے اخبارات کی روزانہ اشاعت غیر معمولی حد تک زیادہ ہےتصویر: AP

وسطی بھارت کے چھتیس گڑھ صوبے کے دارالحکومت رائے پور میں پچھلے دنوں امیش راجپوت نامی ایک صحافی کو دو نقاب پوش بندوق برداروں نے ان کی رہائش گاہ کے باہر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ راجپوت ہندی روزنامہ نئی دنیا کے رپورٹر تھے۔ انہوں نے آنکھوں کے آپریشن کے دوران ڈاکٹروں کی بے احتیاطی کے سبب ایک شخص کی ایک آنکھ ضائع ہوجانے کی خبرشائع کر دی تھی، جس کے بعد سے ہی انہیں جان سے ماردینے کی دھمکیاں ملنے لگی تھیں۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی اس قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں کے خلاف تشدد کے واقعات اظہار رائے کی آزادی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور بھارتی حکومت کو اس پر سنجیدگی سے توجہ دینی چاہیے۔

Journalisten in Gefahr
بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کا دورہ کرنے والے صحافیوں کی ایک ٹیمتصویر: AP

امیش راجپوت کا قتل بھارت میں کسی صحافی کے قتل کا پہلا واقعہ نہیں ہے ۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (CPJ)کے مطابق 1992 سے اب تک بھارت میں 16 صحافی مارے جاچکے ہیں۔ ان میں سے 50 فیصد سیاسی گروپوں کے ہاتھوں، 19 فیصد جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں اور چھ فیصد نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ بڑے شہروں میں صحافت کا پیشہ گلیمرس سمجھا جاتا ہےمگر ملک کے دور دراز علاقوں میں صحافیوں کو شدید مشکلات، دباؤ اور پریشانیوں میں کام کرنا پڑ تا ہے۔

CPJ کے ایشیا کے لیے کوارڈینیٹر باب ڈائز کہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں صحافیوں کے لیے مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوکہ بھارت آزاد اور گوناگوں میڈیا کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن بڑے شہروں سے باہر رہنے والے اور چھوٹے شہروں میں کام کرنے والے صحافیوں کو تشدد اور خطرات کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔

Arundhati Roy 2010
بھارت میں ارون دتی رائے بھی میڈیا کی آزادی کی بہت بڑی حامی ہیںتصویر: AP

اترپردیش کے لکھیم پور کھیری میں ہندی روزنامہ’ امراجالا ‘ کے نامہ نگار سمیع الدین نیلو بہرحال خوش قسمت تھے کہ پولیس کے ہاتھوں ’انکاونٹر‘ ہونے سے بچ گئے۔سمیع الدین نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ضلع میں پولیس کی زیادتیوں اور سرکاری محکموں میں بدعنوانیوں سے متعلق کئی خبریں شائع کیں جس کے بعد بعض افسران اور ملازمین کے خلاف کارروائی بھی ہوئی۔

اس سے انتظامیہ ان سے ناراض ہوگئی اور منہ بند رکھنے یا سنگین نتائج کے لیے تیار رہنے کی دھمکی دی گئ۔ انہوں نے بتایا کہ جب انہیں یہ اندازہ ہوگیا کہ انہیں جھوٹے الزام میں پھنسانے یا جان سے مارنے کا منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے، تو انہوں نے اس سلسلے میں ریاست کے اعلی افسران اور حقوق انسانی کمیشن کو ایک درخواست دی۔

Zeitungsleser Bombenanschlag in Bombay
ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے اگلے روز کے ایک بھارتی اخبار کا ٹائٹل پیجتصویر: AP

اس کے ایک ہفتے کے بعد ہی پولیس والوں نے ایک رات ان کو اغوا کر لیا اور ’انکاونٹر‘ میں مارنے کی کوشش کی لیکن جب انہیں یہ پتہ چلا کہ”میں نے اپنی شکایت پہلے ہی اعلٰی حکام اور حقوق انسانی کمیشن میں کردی ہے تو پولیس والوں نے جان سے مارنے کے بجائے جھوٹے الزام میں جیل میں ڈال دیا ۔‘‘ بہرحال صحافیوں کی کوششوں کے بدولت انہیں بعد میں جیل سے رہائی نصیب ہوگئی۔

چھتیس گڑھ کے ڈاکٹر راجا رام ترپاٹھی نے بھی ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ انہوں نے قبائلی علاقے بستر سے جب اپنے چار دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ہفت روزہ بستر ٹائمز شروع کیا اور ایک قبائلی خاتون کی عصمت دری کی رپورٹ شائع کی تو سیاست دانوں سمیت مختلف حلقوں سے اتنا زبردست دباؤ پڑا کہ ان کا ایک ساتھی خودکشی کرنے پر مجبور ہوگیا جب کہ دوسرا ساتھی کہیں روپوش ہوگیا، جس کا آج تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔

صحافیوں پر اس طرح کے بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کے مدنظر میڈیا سے وابستہ تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تمام تر اقدامات کرے تاکہ بھارت میں آزاد میڈیا کا پرچم بلند رہ سکے۔ انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس کے صدر وکرم راؤ نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے شہروں اور قصبات میں اور بالخصوص انتہاپسندی سے متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں کو دوہری مصیبت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ایک طرف انتظامیہ کا دباؤ رہتا ہے تو دوسری طرف انتہاپسند تنظیمیں انہیں دھمکاتی رہتی ہیں۔ انہوں نے حکومت سے بالخصوص Conflict Areas میں کام کرنے والے صحافیوں کے لیے Risk Insurance کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

رپورٹ : افتخار گیلانی،نئی دہلی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں