1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت میں کرائے کی کوکھ، سالانہ دو ارب ڈالر سے زائد کا بزنس

مقبول ملک
19 جنوری 2017

بھارتی خواتین پیسے لے کر دوسری عورتوں کے جو بچے جنم دیتی ہیں، اس کی سالانہ کاروباری مالیت دو ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ اب لیکن بھارتی حکومت ’کرائے کی کوکھ‘ کہلانے والی اس تجارت پر قانوناﹰپابندی لگانے ہی والی ہے۔

https://p.dw.com/p/2W2f2
Indien Leihmutterschaft - Surrogacy Centre India (SCI) clinic in Neu-Delhi
بھارتی حکومت پیسے لے کر اپنی کوکھ کرائے پر دینے کے عمل پر قانوناﹰ پابندی لگا دینا چاہتی ہے، تصویر میں ایسی ہی ایک بھارتی ماںتصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارت کے تجارتی مرکز ممبئی سے جمعرات انیس جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ بالغ عورتوں کی طرف سے اپنی کوکھ کرائے پر دینا، جسے طبی اصطلاح میں سرّوگیسی (surrogacy) کہا جاتا ہے، آبادی کے لحاظ سے دنیا کے اس دوسرے سب سے بڑے ملک میں سالانہ 2.3 بلین ڈالر مالیت کا کاروبار ہے۔

نئی دہلی میں ہندو قوم پرست سیاستدان نریندر مودی کی حکومت اب ملک میں اس کاروبار کو قانوناﹰ ممنوع قرار دے دینا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں ممکنہ قانون سازی کے لیے بڑی پیش رفت ملکی پارلیمان کے اس اجلاس میں متوقع ہے، جو اگلے ماہ سے شروع ہو رہا ہے۔

انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے لیے سرگرم کئی تنظیموں کی طرف سے بھارت میں سرّوگیسی پر شدید تنقید کی جاتی ہے کہ یوں اپنی ممتا کرائے پر دینے والی عورتیں کئی طرح کے خطرات کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مودی حکومت کا کہنا ہے کہ قانونی پابندی سے اس ’غیر اخلاقی‘ کاروبار کی حوصلہ شکنی کی جا سکے گی۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے لکھا ہے کہ اس آئندہ پابندی سے قبل بہت سی بھارتی خواتین اس کوشش میں ہیں کہ جلد از جلد ’مستقبل کی ماں کے طور پر اپنی کوکھ کرائے پر دے کر‘ لاکھوں روپے کما سکیں۔ بھارت میں کسی بھی ’سّروگیٹ ماں‘ کو اوسطاﹰ چار لاکھ روپے تک کی رقم ادا کی جاتی ہے، جو قریب چھ ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔

Indien Anand Untersuchung Schwangere Frau
بھارتی حکومت کمرشل سروگیسی کے خلاف قانون سازی کا ارادہ رکھتی ہےتصویر: Getty Images/AFP/D. Sarkar

اگر بھارت میں یہ نیا قانون منظور ہو گیا تو ملک میں تجارتی بنیادوں پر ’کرائے کی کوکھ‘ پر پابندی لگا دی جائے گی لیکن ایسے شادی شدہ بھارتی جوڑوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یہ سہولت حاصل رہے گی کہ اگر ان کے اپنے ہاں اولاد نہ ہو رہی ہو تو وہ بغیر کسی ادائیگی کے کسی دوسری عورت کی مدد سے والدین بن سکیں۔

اب تک کے حکومتی ارادوں کے مطابق اکیلے زندگی گزارنے والے بھارتی شہریوں اور ہم جنس پرست جوڑوں کو مستقبل میں یہ قانونی سہولت حاصل نہیں ہو سکے گی کہ وہ surrogacy کے ذریعے ماں باپ بن سکیں۔

تجارتی بنیادوں پر کرائے کی کوکھ ایک ایسا مسئلہ ہے، جس کے بارے میں اقوام متحدہ کی بچوں کے حقوق کی کمیٹی نے 2014ء میں کہہ دیا تھا کہ اگر سرّوگیسی کے طبی عمل کو قانونی حدود و قیود میں نہ لایا گیا تو اس کا مطلب ’بچوں کی تجارت‘ ہو گا۔ اس کے ایک سال بعد 2015ء میں بھارت میں غیر ملکی شہریوں کی طرف سے مقامی عورتوں کی کوکھ کرائے پر لینے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

کن ملکوں میں کون سے قوانین

بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو کینیڈا، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور برطانیہ میں تجارتی بنیادوں پر کسی خ‍اتون کی کوکھ کرائے پر لینے پر پابندی عائد ہے۔ جرمنی، فرانس، اٹلی، پرتگال، اسپین اور بلغاریہ میں تو ہر قسم کی سرّوگیسی ممنوع ہے۔

Indien Leihmutterschaft
بھارت میں اپنی کوکھ کرائے پر دینے والی خواتین کا تعلق اکثر غریب گھرانوں سے ہوتا ہے، جو پیسوں کے لیے ایسا کرتی ہیںتصویر: Sam Panthakya/AFP/Getty Images

امریکا میں وفاقی سطح پر اس موضوع پر ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں کی گئی اور چند امریکی ریاستیں تو تجارتی بنیادوں پر کسی عورت کی کوکھ کرائے پر لینے کی باقاعدہ اجازت بھی دیتی ہیں۔ تھائی لینڈ میں مالی فائدے کے لیے کمرشل سّروگیسی برسوں تک جاری رہی لیکن 2015ء میں حکومت نے غیر ملکیوں کے لیے اس پر پابندی لگا دی تھی۔

بین الاقوامی سطح پر اب جارجیا اور یوکرائن جیسے ممالک کرائے کی کوکھ کے کاروبار کے نئے مراکز بن چکے ہیں، جہاں اس شعبے میں سہولیات اور خدمات فراہم کرنے والے تجارتی اداروں کا کہنا ہے کہ ان دونوں ملکوں کی قومی حکومتوں نے ابھی تک اس بارے میں کوئی قانون سازی نہیں کی۔

روس میں سرّوگیسی یا کرائے کی ماں بننے پر قانوناﹰ کوئی پابندی عائد نہیں اور وفاق روس کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اس حوالے سے اپنے ہاں سب سے کھلی اجازت دے رکھی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں