بھارت میں گھریلو ملازمائیں استحصال اور بدسلوکی کا شکار
10 مارچ 2023گزشتہ ماہ دارالحکومت دہلی کے نواحی علاقے گروگرام میں ایک انتہائی تعلیم یافتہ اور متمول جوڑے کو اپنی 14سالہ ملازمہ پر حملہ، تشدد اور جنسی طورپر ہراساں کرنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پولیس نے پانچ ماہ تک مبینہ طور پر گھر میں قید رہنے کے بعد مشرقی ریاست جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو بازیاب کرایا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے جسم پر چوٹ کے جو نشانات ہیں وہ تشدد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اسسٹنٹ پولیس کمشنر پریت پال سنگوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مذکورہ جوڑا لڑکی پر مسلسل تشدد اور جنسی طورپر ہراساں کر رہا تھا۔ اسے کھانا نہیں دیا جاتا تھا اور کسی وجہ کے بغیر مارا پیٹا جاتا تھا۔ اس کے چہرے اور پاوں پر چوٹ کے نشانات تھے۔‘‘
یہ واقعہ گزشتہ سال کے اسی طرح کے ایک دیگر واقعے سے ملتا جلتا ہے، جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک سینئر رہنما سیما پاترا کو مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں اپنی گھریلو ملازمہ کے ساتھ جسمانی طورپر تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان: ’بچے اور خواتین مزدور جدید غلامی کی مثال‘
سیما پاترا مبینہ طورپراپنی 29سالہ ملازمہ کو گرم توے اور لوہے کی سلاخوں سے پیٹا کرتی تھیں۔ سول سوسائٹی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور بعض اوقات اسے فرش سے پیشاب چاٹنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ ملازمہ کو کئی دنوں تک بغیر کھانا اور پانی دیے کمرے میں بند رکھا جاتا تھا۔
گوکہ ان واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد عوامی سطح پر غم و غصے کا اظہار تو کیا گیا تاہم لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے واقعات دہلی، ممبئی، کولکتہ، بنگلور اور چنئی جیسے میٹرو پولیٹن شہروں میں عام ہیں۔ البتہ جب کبھی یہ خطرناک صورت اختیار کرلیتے ہیں تو لوگوں کو اس کا علم ہوتا ہے۔
گھریلو ملازمین ناگزیر لیکن مصائب سے دوچار
بھارت میں گھریلو ملازمین کو انتہائی کم تنخواہ دینے، زیادہ کام کرانے اور آجروں کے ذریعہ بدسلوکی کی وسیع تر اطلاعات ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران بہت سے جزوقتی ملازمین اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کچھ گھریلو ملازمین بدسلوک آجرین کے چنگل میں مہینوں پھنسے رہے۔
سماجی کارکنان برسوں سے حکومت پر گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارتی قانون کے تحت انہیں باضابطہ ملازم نہیں تسلیم کیا جاتا، جس کا مطلب ہے کہ انہیں بنیادی حقوق مثلاً کم از کم اجرت، سماجی تحفظ کے فوائد اور استحصال اور بدسلوکی کے خلاف تحفظ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔
دہلی ڈومیسٹک ورکرز یونین کی انیتا جونیجہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ان گھریلو ملازمین کے لیے فوائد اور تحفظات کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے حکام کی جانب سے تعاون اب تک انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ ہم ان ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاع دینے کے لیے ایک ہیلپ لائن چلاتے ہیں، لیکن ہزاروں ملازمین ایسے ہیں جواپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں۔‘‘
جونیجہ کا خیال ہے کہ صرف دہلی میں آٹھ لاکھ سے دس لاکھ کے قریب جزوقتی گھریلو ملازمین ہیں جب کہ پندرہ لاکھ کے قریب کل وقتی گھریلو ملازمین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت کمزور ہیں اور انہیں اپنے حقوق کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اس لیے ان سے نہ صرف زیادہ کام لیا جاتا ہے بلکہ استحصال بھی کیا جاتا ہے۔
بہت سے معاملات میں یہ پایا گیا کہ جھارکھنڈ،، اوڈیشہ اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں سے ہجرت کرنے والی ملازمائیں زیادہ استحصال اور جبری مشقت کا شکار ہوئیں۔ ایسے واقعات کم عمر خواتین کے ساتھ زیادہ پیش آئے۔
پاکستان:بچوں کی گھریلو ملازمت پر پابندی کا مطالبہ
گھریلو ملازم فراہم کرنے کا کام کرنے والی نجی ایجنسیاں ان خواتین کو گمراہ کرکے اور جھوٹے وعدے کرکے دہلی جیسے میٹروپولیٹن شہروں میں لاتی ہیں۔ اس طرح وہ بھی ان کے استحصال میں شریک ہیں۔
گھریلو ملازمین کے لیے کوئی تحفظ نہیں
سجاتا مودی پین تھوزیلالرگل سنگم کی صدر ہیں۔ یہ خواتین کارکنوں کی ٹریڈ یونین ہے اور جنوبی تمل ناڈو میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سرگرم ہے۔ یہ غیر سرکاری تنظیم گھریلو ملازمین کے کام کے حالات اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کی وکالت کرتی ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ چنئی میں گھریلو ملازمین کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہیں شہر سے دور کچی آبادیوں میں رہنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
کمسن ملازمین پر تشدد کا سبب، معاشرتی رویے یا ریاستی غفلت؟
مودی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی ملازمائیں اپنی ملازمتیں کھو دیتی ہیں کیونکہ ان کے لیے اپنے گھر کو سنبھالنا اور کافی دور سفر کرکے کام پر جانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے تنخواہوں میں کمی، معیار زندگی اور ٹرانسپورٹ سے متعلق حادثات جیسے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔‘‘
سول سوسائٹی، ٹریڈ یونینوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی کوششوں کے نتیجے میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) نے ایک کنونشن منظور کیا تھا جس میں گھریلو ملازمین کے لیے معیارات طے کیے گئے ہیں۔ بھارت گو کہ اس دستاویز پر دستخط کرنے والے ملکوں میں شامل ہے لیکن اس نے اب تک اس کی توثیق نہیں کی ہے۔
ج ا/ ع ت (ایس مرلی کرشنن)