بھارت میں یوکرین پر روسی حملے کا حامی کون ہے؟
18 مارچ 2022اس ماہ کے اوائل میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں، ایک سخت گیر موقف والی ہندو تنظیم 'ہندو سینا' کے ارکان نے یوکرین پر روسی حملے کی حمایت کے لیے ایک مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ دہلی کے قلب میں مارچ کرتے ہوئے یہ لوگ، ''روس، تم لڑو، ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ اور ''بھارت روس تعلقات زندہ باد‘‘ جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
ہندو سینا گرچہ نسبتاً ایک چھوٹا سیاسی گروپ ہے، لیکن اس کی 16 ریاستوں میں موجودگی ہے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر 10 لاکھ سے بھی زیادہ حامیوں کا دعویٰ کرتی ہے۔
ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا نے ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں کہا، ''روس ہمیشہ سے بھارت کا سچا دوست رہا ہے۔ بھارت کو بھی اپنے فوجی بھیجنا چاہیے تھے۔ یوکرین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے، اس نے ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف بھی ووٹ کیا تھا۔‘‘
بھارتی باشندے روس کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟
دہلی کی سڑکوں پر روس کی حمایت میں مظاہرہ ایک الگ واقعہ ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، روس اور صدر ولادیمیر پوٹن کی حمایت کا مظاہرہ کرتی نظر آ رہی ہے۔
کالج کی ایک طالبہ ریچا کپور کہتی ہیں کہ گرچہ وہ معصوم یوکرینیوں کے لیے برا محسوس کرتی ہیں، لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ اگر افغانستان پر مغربی قیادت میں ہونے والے حملے پر غور کیا جائے، تو اس صورت میں تو مغرب روس پر تنقید کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں انہوں نے کہا، ''ہمیں مغربی بلاک کی منافقت سے بہک نہیں جانا چاہیے۔‘‘
پیشے سے ایک وکیل مہیش کمار اگروال کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں وہ ممالک جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھے وہ بالآخر ایک دن پھر سے روس کے کنٹرول میں واپس آجائیں گے۔
اسی طرح کا ایک سیاسی جغرافیائی تصور ''اکھنڈ بھارت‘‘ (مکمل ہندوستان) کے نام سے معروف ہے، جس کی دائیں بازو کے بھارتی کافی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے تحت افغانستان سے لے کر میانمار تک پھیلے ہوئے پورے برصغیر کو ایک ملک کرنا لازمی ہے۔ بھارتی ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ اب اس نظریہ کو بھارت کی روح کے عین مطابق سمجھتا ہے۔
روسی صدر پوٹن کے دیگر حامی روس کے ساتھ تاریخی تعلقات کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ اس میں سوویت یونین کی دور کی وہ یادیں بھی شامل ہیں جب سن 1971 کی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران روس نے بھارت کی حمایت کی تھی۔
جاگرن انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ اینڈ ماس کمیونیکیشن کی ڈائریکٹر نلنی رنجن موہنتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سابقہ سوویت یونین کے ساتھ تاریخی تعلقات، اور چین کا روس کے قریب تر ہونے کا خدشہ بھی وہ وجوہات ہیں جو بھارت کی حمایت کا سبب ہیں۔‘‘
بھارتی حکومت کا موقف
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسبملی سمیت متعدد اجلاس ہو چکے ہیں۔ اس میں انسانی حقوق کے حوالے سے روس کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ہی کئی اہم پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
تاہم مغربی ممالک کے اصرار کے باوجود بھارت نے روس کے خلاف ووٹ نہیں کیا بلکہ وہ اس عمل سے غیر حاضر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روس نہ صرف بھارت کو دفاعی ساز و سامان مہیا کرتا بلکہ اس کے رکھ رکھاؤ میں بھی اس کی مدد کرتا ہے۔ اس حوالے سے روس کے ساتھ بھارت کے دیرینہ تعلقات ہیں۔
ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ اور یہ بھی ہے کہ پوٹن اور وزیر اعظم نریندر مودی کے پاپولسٹ سیاسی انداز میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ میڈیا امور کے تاریخ دان راکیش بٹیال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دونوں رہنما اپنی شخصیتوں میں ایک مضبوط مردانہ امیج پیش کرتے ہوئے قوم پرستی، آمرانہ طرز حکومت اور سخت قیادت کے انداز کو ظاہر کرتے ہیں۔‘‘
بھارت میں روس کی مخالفت کون کرتا ہے؟
لیکن بھارت میں ایک وہ لابی بھی ہے جو یوکرین کی جنگ میں بھارت کے غیر جانبدار پر نکتہ چینی بھی کر رہی ہے اور نئی دہلی سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ایک خود مختار ملک پر حملہ کرنے کے لیے روس کی مذمت کرے۔
کانگریس پارٹی کے رہنما ششی تھرور کا کہنا ہے کہ روس ایک دوست ہے، اور اس کے کچھ جائز سکیورٹی خدشات بھی ہو سکتے ہیں، تاہم یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ بھارت نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے۔
ان کا کہنا تھا،''بھارت وہ ملک ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی نشست کا خواہشمند ہے اور اگر وہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصولوں پر اس طرح سے مکمل خاموشی اختیار کر لے تو یہ اس کی جانب سے اچھا پیغام نہیں ہے۔‘‘
کانگریس کے ایک اور رہنما منیش تیواری نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ بھارت اس ''بے مثال اور بلا جواز جارحیت‘‘ کے خلاف یوکرین کے ساتھ کھڑا ہو۔ انہوں نے کہا،''جب دوست غلطی پر ہوں تو انہیں باخبر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
مرلی کرشنن (ص ز/ ک م)