بھارت نے ادویات سازی کے لیے نئے معیارات مقرر کر دیے
6 جنوری 2024سن 2022 کے دوران بھارت میں تیار کردہ ادویات کے استعمال سے بیرون ملک درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور اس وجہ سے بھارت کے تشخص کو بھی زبردست دھچکا لگا تھا۔ اب وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے اس 50 بلین ڈالر کی صنعت کا امیج بہتر بنانے کے لیے دوا ساز فیکٹریوں کی جانچ پڑتال کرنے کے ساتھ ساتھ نئے قوانین متعارف کرا دیے ہیں۔
نئی دہلی حکومت کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے، ''مینوفیکچررز کو دوا سازی کی مصنوعات کے معیار کو لازمی برقرار رکھنا ہو گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ مطلوبہ دوائی استعمال کے لیے موزوں ہے۔ لائسنس کے حصول کے لیے تمام تقاصے پورے کیے جائیں تاکہ ناکافی حفاظتی معیار یا کم افادیت کی وجہ سے مریضوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ کمپنیوں کو اجزاء کے ٹیسٹ کرنے اور اس کے بعد ''اطمینان بخش نتائج‘‘ حاصل ہونے کے بعد ہی تیار شدہ مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنا ہو گی۔
بھارتی وزارت صحت نے گزشتہ برس اگست میں کہا تھا کہ دسمبر 2022 سے لے کر اب تک 162 ادویات کی فیکٹریوں کے معائنے کیے گئے اور ان فیکٹریوں میں ''آنے والے خام مال کی جانچ کرنے کے طریقے کی عدم موجودگی‘‘ پائی گئی۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ بھارت کی 8500 چھوٹی دوا ساز فیکٹریوں میں سے ایک چوتھائی سے بھی کم عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مقرر کردہ بین الاقوامی معیارات پر پورا اترتی ہیں۔
نئی دہلی حکومت نے ملک کی تمام دواساز کمپنیوں کو کہا ہے کہ یہ حکومتی خدشات دور کیے جائیں۔ اس تناظر میں بڑی دوا ساز کمپنیوں کو چھ ماہ جبکہ چھوٹی دوا ساز کمپنیوں کو ایک سال کی مہلت دی گئی ہے۔
چھوٹی کمپنیوں نے حکومت سے مزید مہلت طلب کی ہے۔ ان کمپنیوں کا کہنا ہے کہ نئے معیارات اپنانے کے لیے اضافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ان میں سے نصف کے بند ہونے کے خدشات ہیں۔ متعدد چھوٹی دوا ساز کمپنیاں پہلے ہی قرض تلے دبی ہوئی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او اور دیگر طبی حکام کے مطابق بھارت میں تیار ہونے والا کھانسی کا شربتگیمبیا، ازبکستان اور کیمرون میں کم از کم 141 بچوں کی موت کا ذمہ دار ہے۔
ا ا / ش ر (روئٹرز)