بھارت نے سکھوں پر حملے کے لیے پاکستانی سفارت کار کو طلب کیا
27 جون 2023ایک ایسے وقت جب بھارت میں مسلمانوں کے خلاف موجودہ حکومت کے رویے اور انسانی حقوق کے ریکارڈ کے حوالے سے امریکہ سے نئی دہلی تک بحث جاری ہے، بھارت نے ایک سینیئر پاکستانی سفارت کار کو وزارت خارجہ میں طلب کر کے سکھ اقلیت پر حالیہ حملوں کے سلسلے میں احتجاج کیا ہے۔
پاکستانی کشمیر کو واپس لینے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں، بھارت
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے پشاور میں ایک سکھ کا قتل کر دیا گیا تھا۔ بھارتی حکام کے مطابق سکھ اقلیتوں کے قتل کے معاملے پر نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سفارت کار کے ساتھ شدید احتجاج درج کرایا گیا۔
بھارت اور امریکہ کے مشترکہ بیان پر پاکستان کا احتجاج
بھارت کے مطابق رواں برس اپریل اور جون کے درمیان پاکستان میں سکھ برادری پر حملوں کے چار واقعات پیش آ چکے ہیں۔
پاکستان بھارت مخالف انتہاپسندوں کو لگام دے، بائیڈن، مودی
پاکستانی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق حالیہ واقعے میں، سنیچر کے روز، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں منموہن سنگھ نامی ایک سکھ کو نامعلوم مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
کیا بھارت میں اقبال کی میراث کو مٹانا ممکن ہے؟
واضح رہے کہ نام نہاد دہشت گرد گروپ 'اسلامک اسٹیٹ' نے اپنے ایک بیان میں منموہن سنگھ کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی، اور انہیں ''مشرکانہ'' سکھ مذہب کا پیروکار بتایا تھا۔ اس بیان میں ایک روز قبل ایک دوسرے سکھ پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی۔
طالبان کے ساتھ مغربی مذاکرات، پاکستان اور بھارت بھی
بھارت نے کیا کہا؟
بھارتی ذرائع ابلاغ میں وزارت داخلہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ نئی دہلی نے اس برس اپریل اور جون کے درمیان ہونے والے چار حملوں کا ''سنجیدہ'' نوٹس لیا ہے۔ ''پاکستان میں سکھ برادری کے افراد پر حالیہ حملوں کے بعد بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سینیئر سفارت کار کو طلب کیا اور ان واقعات پر شدید احتجاج درج کرایا ہے۔''
بیان کے مطابق، '' یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اپنی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور حکومت نے پاکستانی حکام سے کہا ہے کہ وہ سکھ برادری پر حملوں کی ''مخلصانہ'' تحقیقات کریں اور اپنی رپورٹ شیئر بھی کریں۔''
بھارت میں انسانی حقوق کی ابتر صورت حال
بھارت نے پاکستان کو اپنے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے یہ نصیحتیں ایک ایسے وقت پر کی ہیں، جب خود بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے وزیر اور ان کی پارٹی کے کئی رہنما امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما کی اس بات سے کافی ناراض ہیں کہ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کی پریشان کن صورت حال کے بارے میں باتیں کیوں کی اور انسانی حقوق سے متعلق آواز کیوں اٹھائی۔
واضح رہے کہ امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے دوران ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تمنا ہے کہ جب صدر جو بائیڈن مودی سے بات چیت کریں، تو وہ بھارت میں مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ سے متعلق پائے جانے والے خدشات پر بھی زور دیں۔
سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران سابق امریکی صدر اوباما نے کہا تھا: ''اگر میں وزیر اعظم مودی، جنہیں میں اچھی طرح جانتا ہوں، کہ ساتھ بات چیت کرتا تو میری دلیل کا ایک حصہ یہ بھی ہوتا کہ اگر آپ بھارت میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرتے ہیں، اورقوی امکان اس بات کا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب بھارت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے شروع ہو جائیں گے۔''
مودی کے دورہ امریکہ سے قبل کچھ ڈیموکریٹک قانون سازوں نے بھی مذہبی اور شہری آزادیوں کے تعلق سے بھارت کے ریکارڈ پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ امریکی سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے 70 سے زائد ارکان نے ایک خط پر دستخط کیے تھے، جس میں انہوں نے بائیڈن انتظامیہ سے مودی کے ساتھ بات چیت کے دوران انسانی حقوق کے خدشات پر گفتگو کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔