1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت پاک تعلقات میں کشیدگی، غصہ قیدیوں پر

جاوید اختر، نئی دہلی
14 دسمبر 2016

بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات میں کشیدگی کا خمیازہ دونوں ملکوں کی جیلوں میں موجود میں وہ قیدی بھگت رہے ہیں، جنہوں نے اپنی سزائیں بھی کاٹ لی ہیں لیکن رہائی کے انتظار میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2UGJS
Indischer Politiker Raghuraj Pratap Singh im Gefängnis
تصویر: S. Waheed

بھارت اور پاکستان نے ایک دوسرے کے یہاں جیلوں میں بند اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے 2008ء میں ایک میکنزم طے کیا تھا، جس کے تحت دونوں ملکوں کے سبکدوش ججوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی، جو ایک دوسرے کی جیلوں میں جا کر اپنے ملک کے قیدیوں کی صورت حال کا جائزہ لیتی ہے۔ کمیٹی ان قیدیوں کے ساتھ انسانی سطح کے سلوک کو یقینی بنانے اور سزائیں مکمل ہو جانے کے بعد ان کی جلد از جلد رہائی کے انتظامات کے حوالے سے اقدامات بھی تجویز کرتی ہے۔ لیکن اب دونوں ملکوں کے مابین تعلقات میں سرد مہری کے سبب گزشتہ تین برسوں سے سبکدوش ججوں کی کمیٹی کا کوئی دورہ نہیں ہو سکا ہے۔
بھار ت کے معاون وزیر خارجہ جنرل(ریٹائرڈ) وی کے سنگھ نے پارلیمان میں ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’’پاکستان سے مذکورہ کمیٹی آخری مرتبہ 2013ء میں بھارت آئی تھی۔ اب یہ پاکستان کی باری ہے کہ وہ کمیٹی کے اگلے دورے کا انتظام کرے اور بھارت اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے مزید اقدامات کا منتظر ہے۔
جنرل سنگھ نے بتایا کہ جولائی 2016ء تک 516 بھارتی شہری پاکستانی جیلوں میں بند تھے۔ ان میں 55 ماہی گیر بھی شامل ہیں جب کہ 270 پاکستانی سویلین اور 37 ماہی گیر بھارت کی جیلوں میں قید ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ سن دو ہزار تیرہ سے پندرہ کے دوران پاکستانی جیلوں میں تین بھارتی سویلین قیدی اور آٹھ ماہی گیر وفات پا گئے تھے جب کہ رواں برس ایک بھارتی سول قیدی اور دو ماہی گیروں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ جنرل سنگھ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت اپنی جیلوں میں مبینہ طور پر قید 54 جنگی قیدیوں اور 74 لاپتہ سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی تسلیم نہیں کررہی ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کا نقصان خاص طور پر ان ماہی گیروں کو ہو رہا ہے، جو غلطی سے ایک دوسرے کی آبی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ماہی گیر مچھلیوں کے شکار کے دوران اچھی اور زیادہ مچھلیاں پکڑنے کے لالچ میں آبی حدود کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس کا اندازہ انہیں اس وقت ہوتا ہے، جب وہ سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہیں۔ بھارتی معاون وزیر خارجہ جنرل سنگھ کا کہنا تھا کہ ماہی گیروں کے معاملے پر انڈین کوسٹ گارڈ اور پاکستان میری ٹائم فورس کے درمیان اس سال کے اوائل میں ایک میٹنگ ہوئی تھی، جس کے اچھے نتائج سامنے آئے تھے۔
بھارت اور پاکستان باہمی تعلقات میں سیاسی خیر سگالی کے جذبے کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایک دوسرے کے قیدیوں اور ماہی گیروں کو رہا بھی کرتے رہتے ہیں۔ 2016ء  میں پاکستان نے 190بھارتی ماہی گیروں اور دو سویلین قیدیوں کو رہا کیا تھا جب کہ بھارت نے اس کے جواب میں دس سویلین پاکستانی قیدیوں اور نو ماہی گیروں کو رہائی دی تھی۔
دریں اثناء بھارت کی سپریم کورٹ نے مودی حکومت کو ایک حلف نامہ داخل کر کے پاکستانی قیدیوں کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت سے یہ بھی بتانے کو کہا ہے کہ کتنے پاکستانی قیدیوں کے مقدمات زیر التوا ہیں، کتنے قیدیوں کو جیل میں رکھا گیا ہے اور کتنے قیدیوں نے سزائیں مکمل کرلی ہیں۔  یہ بھی پوچھا گیا ہے کہ سزائیں مکمل کر لینے والے قیدیوں کو واپس بھیجنے کا کیا طریقہ کار ہے؟ سپریم کورٹ نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ کتنے پاکستانی غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوئے اور آیا انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے؟ مودی حکومت کو دو فروری 2017ء تک ان سوالوں کا جواب دینے کی مہلت دی گئی ہے۔