’بھارت کا سیکولر تشخص خطرے میں‘، دانشوروں کا احتجاج
31 اکتوبر 2015بھارت کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی متعدد شخصیات ملک میں مذہبی برداشت، نسلی امتیاز کے خاتمے اور آزاد خیالی کے لیے آواز بلند کرنے لگی ہیں۔ بھارتی دانشوروں نے ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت میں تنوع اور سیکولرازم کی حفاظت کی جائے۔ یہ مظاہرین ملک میں لادین افراد اور اقلیتوں کے خلاف شروع ہونے والی تشدد کی نئی لہر پر شدید تحفظات رکھتے ہیں۔
اس تناظر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سیاستدان مودی کی خاموشی بھی اس طبقے کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ناقدین کے بقول مودی کی طرف سے واضح طور پر کوئی بیان جاری نہ کرنے کی وجہ سے ان کی پارٹی کے کچھ حامیوں کو شہ مل رہی ہے اور وہ ’ہندوؤں کی عظمت‘ کے حق میں بیان جاری کرتے رہیں۔
جمعرات انتیس اکتوبر کے دن بھارت میں سو سے زائد سائنسدانوں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بھارت میں سائنس اور منطق کو خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔ ان سائنسدانوں میں بھارت کے چوٹی کے جوہری طبعیات دان، ریاضی دان اور خلائی سائنسدان بھی شامل ہیں۔ اس بیان میں کہا گیا، ’’ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ اہم حکومتی عہدیداروں کی طرف سے غیر منطقی اور نسلی امتیاز پر مبنی سوچ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔‘‘
بھارت کے درجنوں مصنفین نے مذہبی عدم برداشت اور نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے قومی انعامات و اعزازات واپس کر دیے ہیں۔ بھارتی معاشرے کے دانشور طبقے میں بے چینی کی یہ لہر ستمبر کے اواخر میں اس وقت پیدا ہوئی تھی، جب ہندوؤں کے ایک مشتعل ہجوم نے ایک مسلمان کو مار مار کر ہلاک جب کہ اس کے بیٹے کو شدید زخمی کر دیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ گائے ذبح کرنے کے مرتکب ہوئے تھے۔ بعد ازاں معلوم ہوا تھا کہ اصل میں اس مسلمان کنبے نے گائے نہیں بلکہ ایک بکرا ذبح کیا تھا۔
رواں برس اس طرح کے متعدد واقعات رونما ہوئے، جن میں تین لادین اسکالرز کی ہلاکت بھی شامل ہے۔ یہ دانشور مذہبی توہم پرستی کے خلاف مہم چلا رہے تھے۔ اسی طرح گائے کو ذبح یا اسمگل کرنے کے الزامات اور افواہوں کے بعد بھی کئی مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حالات اتنے خراب نہیں جتنا کہ ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ تجزیہ نگار اشوک ملک کے مطابق اگر بھارت میں مذہبی تشدد کی تاریخ دیکھی جائے تو جتنا تشدد تین عشرے قبل تھا، وہ اب نہیں ہے۔
یہ امر اہم ہے بھارت کے کئی حلقوں میں یہ خطرہ اسی وقت پیدا ہو گیا تھا کہ بھارت کے سیکولر تشخص کو خطرہ ہو سکتا ہے، جب ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی نے گزشتہ برس پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی نے بھارتی معاشرے میں ’برداشت اور تنوع‘ کے موضوع پر بیانات کم ہی جاری کیے ہیں۔
مالیکیولر بائیولوجسٹ پی ایم بھرگووا نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے ڈر ہے کہ ہم جمہوریت سے دور ہوتے ہوئے ہندو مذہبی مطلق العنانی کی سمت جا رہے ہیں۔‘‘ اپنے قومی ایوارڈ سے دستبردار ہونے والے اس سائنسدان نے مزید کہا، ’’میں ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتا، جو اپنی جمہوری اقدار کھو کر ایک مذہبی ریاست بن جائے۔‘‘
دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے ان حالیہ مظاہروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دارصل ان کی پارٹی کو سیاسی نقصان پہنچانے کی کوشش ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ اس احتجاج میں شریک ہیں، وہ ماضی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالفین رہے ہیں۔
اسی طرح بھارتی وزیر ثقافت مہیش شرما نے تجویز دی ہے کہ ایسے بھارتی مصنفین لکھنا چھوڑ دیں، جن کے لیے ملک کا ثقافتی ماحول ان کے کام کے لیے مناسب نہیں رہا۔ قدیم بھارتی امور کی ماہر مؤرخہ رومیلا تھاپر نے شرما کے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایسا ہی ہے کہ کہہ دیا جائے کہ اگر مصنفین نے احتجاج کیا تو انہیں خاموش کرا دیا جائے گا۔
بدھ کے دن سو سے زائد فنکاروں، پینٹرز، مسجمہ سازوں، فوٹوگرافروں، ناقدین اور مؤرخین کے ایک گروپ نے اپنے ایک بیان میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت عوامی جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔