بھارت: کسان تحریک نے پرتشدد صورت اختیار کر لی
7 جون 2017بھارت کے وسطی صوبے مدھیہ پردیش کے مندسور ضلع میں احتجاج کرنے والے کسانوں پر پولیس کی فائرنگ کے خلاف آج ملک کے کئی علاقوں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ مندسور ضلع میں بے قابو مظاہرین نے گاڑیوں کو آگ لگا دی اور ریلوے املاک کو نقصان پہنچایا۔
کسانوں نے کل فائرنگ میں ہلاک ہوئے اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو سڑک پر رکھ کر مظاہرہ کیا۔ صور ت حال کی سنگینی کے مدنظر وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلیٰ سطحی ہنگامی میٹنگ کی، جس میں کسانوں کے غم و غصے کو کم دینے کے حوالے سے کئی اہم فیصلے لئے گئے۔ ادھر صوبائی حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لئے کئی اضلاع میں کرفیو نافذ کردیا ہے اور افواہوں پر قابو پانے کے لئے انٹرنیٹ خدمات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
کسان بنیادی طور سرکاری، کوآپریٹیو اور پرائیویٹ بینکوں کی طرف سے انہیں دیے گئے قرضے معاف کرنے اور زرعی پیداوار کی بہتر قیمت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وہ اپنے مطالبات پر زور دینے کے لئے سڑکوں پر پھل اور سبزیاں پھینک رہے ہیں اور دودھ بہا رہے ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سکریٹری اتل کمار انجان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے موجودہ مودی حکومت کو کسانوں کے مسائل کے حوالے سے بے حس قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ایک طرف ملک میں روزانہ 35 کسان خودکشی کر رہے ہیں دوسری طرف حکومت ان پر گولیاں چلوا رہی ہے۔‘‘
آل انڈیا کسان سبھا کے جنرل سکریٹری اتل کمار انجان نے کسانوں کے بارہ اعشاریہ پانچ لاکھ کروڑ روپے کے قرضوں کو معاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بتایا کہ بیج کی قیمتوں میں ہر سال بیس تا پچیس فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ کسانوں پر قرض کا بوجھ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ خودکشی کے لئے مجبور ہو رہے ہیں۔ سن 2014 میں 5650 کسانوں نے خودکشی کر لی ، 2015ء میں یہ تعداد آٹھ ہزار اور 2016ء میں بڑھ کر 12610ہو گئی۔
اتل انجان کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کے لئے انشورنس کے سوال پر کسی حکومت نے سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ حکومت انشورنس کے نام پر جو اسکیمیں چلا رہی ہے اس میں صرف انشورنس کمپنیوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ وہ ایک طرف کسانوں کو لوٹتے ہیں تو دوسری طرف سرکاری پیسہ اپنی جھولی میں بھرتے ہیں۔
خیال رہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت والی اتر پردیش حکومت نے پچھلے دنوں کسانوں کے تقریباً پانچ بلین ڈالر کے قرضے معاف کردیے تھے۔ اس کے بعد دیگر اور بالخصوص بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں کسانوں کے قرضے معاف کرنے کے لئے دباو بڑھ گیا ہے۔
لیکن وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت اپنی طرف سے کسی کا ایک پیسہ بھی قرض معاف نہیں کرنے والی، صوبائی حکومتیں اپنے وسائل سے اس سلسلے میں جو کرنا چاہیں کریں۔ دراصل اس وقت بھارت کا بینکنگ سیکٹر لاکھوں کروڑ روپے کے ڈوبے قرض کی وجہ سے غیر معمولی بحران سے دوچار ہے اور اگر کسانوں کے قرض معاف کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو بینکوں کا تین چار لاکھ کروڑ روپے کا براہ راست نقصان ہوجائے گا۔
بھارت میں انتخابی سیاست بہت کچھ دیہی اور زرعی حالات کے گرد گھومتی ہے اور کوئی بھی حکومت دیہی آبادی بالخصوص کسانوں کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے سکتی ہے۔
’غربت کے مارے بھارتی کسان اپنے بچے فروخت کر رہے ہیں‘
اسی لئے الیکشن کے دوران کسانوں کو لبھانے کے لئے طرح طرح کے خوشنما وعدے کئے جاتے ہیں جو شاید ہی عملی صورت اختیار کر پاتے ہیں۔
بھارت میں اقتصاد ی اور سماجی منصوبہ سازی کرنے والے ادارے نیتی آیوگ کے رکن پروفیسر رمیش چند کا کہنا ہے کہ ’’کسانوں کے توقعات مسلسل بڑھتی جا رہی ہیں، وہ مفت میں پانی، کھاد چاہتے ہیں اور قرضوں کو معاف کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پیداواری لاگت کا پچاس فیصد حکومت ادا کرے۔ کوئی بھی ملک اس طرح کے مطالبات پورے نہیں کر سکتا۔‘‘
دریں اثنا اس صورت حال نے سیاسی رخ اختیار کرلیا ہے۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپوزیشن پارٹیوں پر کسانوں کو گمراہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن کانگریس نے حکومت پر کسانوں کے ساتھ جنگ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر اہل گاندھی نے ٹوئٹ کر کے کہا کہ’’یہ حکومت ہمارے ملک کے کسانوں کے ساتھ جنگ کر رہی ہے۔ نیو انڈیا میں اناج فراہم کرنے والوں کو اپنا حق مانگنے پر گولی ملتی ہے۔‘‘