بھارت کو ’مولانا مسعود اظہر سے خطرہ‘
18 فروری 2014بھارتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی الرٹس مولانا مسعود اظہر کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کی رپورٹوں پر جاری کیے گئے۔ نئی دہلی حکومت مولانا مسعود اظہر کو 2001ء کے پارلیمنٹ حملے کے لیے ذمہ دار قرار دیتی ہے جو پاکستان اور بھارت کو جنگ کے دہانے پر لے گیا تھا۔ پاکستان نے اظہر کو بھارت کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا۔
ایک طویل عرصے سے وہ بیشتر اوقات اپنے آبائی شہر بہاولپور کے ایک کمپاؤنڈ میں بند رہا ہے۔ تاہم تین ہفتے قبل اس نے ایک ریلی سے خطاب کر کے کئی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا۔ اس خطاب میں اس نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ بھارت کے خلاف جہاد کی بحالی کا وقت آ پہنچا ہے۔
مولانا اظہر نے پاکستانِ کے زیر انتظام کشمیر کے شہر مظفر آباد کی اس ریلی سے کسی نامعلوم مقام سے ٹیلی فونک خطاب کیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارتی انٹیلیجنس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکا رواں برس افغانستان سے اپنی افواج نکال رہا ہے اور اسلام آباد حکومت اپنے مخالف اسلام پسندوں پر قابو پانے میں لگی ہے، اس تناظر میں اظہر کا پھر سے منظرِ عام پر آنا پاکستان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
بھارتی حکام کے مطابق پاکستان کی عسکری انتظامیہ اظہر جیسے شدت پسندوں کو اس وعدے پر سرد خانے سے نکال رہی ہے کہ وہ انہیں بھارت کے خلاف لڑائی میں مدد دے گی۔
دیگر بھارتی اہلکاروں کے مطابق مظفر آباد کی ریلی اور اظہر کا اس سے خطاب، ریاست کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ پاکستان اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کاکہنا ہے: ’’انہوں نے ایک ریلی سے خطاب کیا، لیکن اس بات کی یقین دہانی کروانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے وہ دوبارہ ایسا نہ کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’یہ ممکن نہیں کہ ہم ان کے گروپ کو کہیں اور دہشت پھیلانے کی اجازت دیں جبکہ اس پر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی بناء پر پابندی ہے۔‘‘
پاکستان کے ایک ریٹائرڈ فوجی جنرل طلعت مسعود کا کہنا ہے: ’’یہ بہت ہی خطرناک ہے کہ پاکستانی انتظامیہ اسے (اظہر کو)چھُوٹ دے رہی ہے۔ وہ آگ سے کھیل رہی ہے اور آگ اسے اپنی لپیٹ میں لے لی گی۔‘‘
اظہر کو 1994ء میں بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم 1999ء میں اس کے ساتھیوں نے ایک بھارتی مسافر طیارہ ہائی جیک کیا اور اس کے 155 مسافروں کے بدلے میں اظہر کو رہا کروا لیا۔