'بھارت کی مسلمان خواتین کے لیے بڑی کامیابی‘
31 جولائی 2019بھارت کے وزیر قانون روی شنکر پرساد کا کہنا ہے کہ بھارتی سینیٹ کی جانب سے اس بل کی منظوری ظاہر کرتی ہے کہ بھارت بدل رہا ہے اور یہاں خواتین خود مختار ہو رہی ہیں۔ بھارتی قومی اسمبلی میں اس بل کو گزشتہ ہفتے منظور کیا گیا تھا۔ ملکی صدر کی منظوری کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن جائے گا۔
بھارت کے تقریباﹰ 170 ملین مسلمانوں کا تعلق سنی مسلک سے ہے اور وہ 'مسلم قانون برائے امور خانہ‘ کے تحت اپنے گھریلو مسائل حل کرتے ہیں۔ اس تنظیم کے تحت مسلمان مرد اپنی بیوی کو تین مرتبہ طلاق کہہ کر اسے طلاق دے سکتا تھا۔ چاہے یہ الفاظ ایس ایم ایس پیغام، سوشل میڈیا یا کسی اور طرح کہے گئے ہوں۔ دنیا میں پاکستان سمیت بیس ایسے اسلامی ممالک ہیں جہاں مسلمان مردوں کا اس طرح اپنی اہلیہ کو طلاق دینا جائز نہیں ہے۔
اس بل کی منظوری کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ پارلیمان میں اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی منظوری کو قریب ایک سال تک روکے رکھا تھا۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصے میں اپوزیشن جماعتوں میں کچھ اختلافات نے اس بل کی منظوری میں مدد فراہم کی ہے۔
بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ اکثر اپوزیشن جماعتوں کو اس بل کی ایک شق پر شدید اختلاف تھا۔ اس شق کے تحت تین مرتبہ طلاق کا لفظ ادا کر کے طلاق دینے والے شوہر کو تین سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ کچھ مخالفین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا ہو جانے کی صورت میں تین سال تک اس خاتون کی مالی مدد کون کرے گا اور جب شوہر تین سال بعد جیل سے واپس گھر جائے گا تو کیا اس کی اہلیہ اور اس میں محبت کا رشتہ قائم ہو سکے گا۔ لیکن اس شق پر اٹھائے جانے والے اعتراض کے حوالے سے حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی ترجمان شازیہ علمی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،'' اگر خاتون اپنی شکایت کو واپس لیتی ہے تو شوہر کی سزا ختم ہو سکتی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،'' مسلمان خواتین ایک خوف میں رہ رہی تھیں کہ انہیں کبھی بھی چھوڑا جا سکتا ہے اور گھر سے نکالا جاسکتا ہے۔ مرد واٹس ایپ کے ذریعے اپنی بیویوں کو طلاق دے رہے تھے، بھارت کی مسلمان خواتین اس قانون کو اپنی بہت بڑی کامیابی ٹہرا رہی ہیں۔‘‘
اس معاملے پر بھارت میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں یہ رائے دیتی رہی ہیں جہ بہت سی غریب اور بے سہارا مسلمان خواتین کو ان کے شوہر تین مرتبہ طلاق کہہ کر گھر سے نکال دیتے ہیں اور یوں ایک عورت نہ صرف بے سہارا ہو جاتی ہے بلکہ شوہر کی جانب سے بچوں کو اپنے پاس نہ رکھنے کی صورت میں اس عورت پر اپنے بچوں کی ذمہ داری بھی بڑھ جاتی ہے۔