بھارت: ہر گھنٹے میں ایک طالب علم کی خودکُشی
19 اپریل 2018ایک طالب علم کے خودکُشی کا تازہ ترین واقعہ بھارت کے چوٹی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سے ایک انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(آئی آئی ٹی) کانپور میں رونما ہوا، جہاں دہلی سے ملحق فرید آباد کے رہنے والے پی ایچ ڈی مکینیکل انجینئرنگ کے طالب علم بھیم سنگھ نے خودکشی کر لی ہے۔ دوسری طرف راجھستان کے کوٹہ میں ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں رہ کر انجینئرنگ کے داخلہ جاتی امتحان کی تیار ی کرنے والے بہار کے بیگو سرائے ضلع کے ایک طالب علم رشبھ کمار نے آج اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا ہے۔
پولیس رپورٹ کے مطابق بدھ کے روز جب بھیم سنگھ اپنے ہاسٹل کے کمرے سے دن بھر باہر نہیں آئے تو ان کے ساتھیوں کو تشویش ہوئی۔ انہوں نے ادارے کے انتظامیہ کو اطلاع دی جس کے بعد پولیس طلب کی گئی۔ جب پولیس نے کمرے کا دروازہ کھولا تو بھیم سنگھ کی لاش چھت سے لٹکی ہوئی ملی۔ اس کے پاس سے ایک خودکشی نوٹ بھی ملا لیکن انتظامیہ نے اس کی تفصیلات ابھی نہیں بتائی ہیں۔ تاہم ان کے دوستوں نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ پڑھائی کے دباو کی وجہ سے بھیم سنگھ یہ انتہائی قدم اٹھانے کے لیے مجبور ہوئے ہوں گے۔ دوسری طرف کوٹہ میں خودکشی کرنے والے رشبھ کمار کے پاس سے جو خودکشی نوٹ ملا ہے اس پر لکھا ہے،’’میں زندگی سے پریشان ہوگیا ہوں، اب جینا نہیں چاہتا ، دوسری دنیا میں جا رہا ہوں۔‘‘
آئی آئی ٹی جیسے بھارت کے موقر ترین تعلیمی ادارے میں ایک ہفتے کے اندر اندر خودکشی کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ تیرہ اپریل کو آئی آئی ٹی دہلی کے گوپال مالو نے اپنے ہاسٹل کے کمرے میں چھت سے لٹک کر خودکشی کر لی تھی۔ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے مدنظر آئی آئی ٹی نے اپنے تعلیمی نصاب پر نظر ثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا نصاب مرتب کیا جا رہا ہے، جس سے طلبہ کے تعلیمی دباؤ پر قابو پانے اور خودکشی جیسے رجحانات سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔
متنازعہ ایجاد: ایمسٹرڈم میں ’خودکشی کی مشین‘ کی عوامی نمائش
بھارت میں طلبہ میں خودکشی کے واقعات اب غیرمعمولی نہیں رہ گئے ہیں۔ گزشتہ دو اپریل کو بی آر ڈی میڈیکل کالج گورکھ پور میں ایم بی بی ایس چوتھے سال کے طالب علم سومیتی سدھارتھ نے خودکشی کر لی تھی۔ خودکشی کی وجہ ڈپریشن بتائی گئی تھی۔ دہلی کے ہرش وہار علاقے میں رہنے والے گیارہویں کے طالب علم انکت کمار نے بورڈ امتحان میں میتھ میٹکس میں فیل ہو جانے پر مایوس ہوکر دو دن قبل خودکشی کر لی تھی۔
طلبہ کے خودکشی کے مختلف اسباب ہیں۔ تاہم پڑھائی کا دباؤ اور غیر یقینی کیریئر سب سے اہم ہیں۔ بعض طلبہ ریگنگ کی وجہ سے پریشان ہوکر اپنی زندگی کو ختم کر لینے کا انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جب کہ طالبات چھیڑ خانی سے تنگ آکر خود اپنی جان لے لیتی ہیں۔ حالانکہ ریگنگ اور چھیڑخانی دونوں ہی قابل تعزیر جرائم ہیں، تاہم تعلیمی ادارے اپنی بدنامی کو چھپانے کے لئے ایسے جرائم پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور ملزم بڑی مشکل سے قانون کی گرفت میں آ پاتے ہیں۔
بھارت میں جرائم کے اعدادو شمار جمع کرنے والا ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ہر روز بیس سے زائد طلبہ خودکشی کر لیتے ہیں گویا کہ تقریباً ہر ایک گھنٹے میں ایک طالب علم اپنی زندگی کا چراغ گل کر رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
جاپان: سماجی ویب سائٹس اور خود کشی کا رجحان
بین الاقوامی جریدے لانسیٹ کے مطابق بھارت میں پندرہ سے انتیس برس کی عمر کے نوجوانوں میں خودکشی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ اس خطرناک صورت حال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق 2015ء میں صوبہ مہاراشٹر میں 1230اور تامل ناڈو میں 955 طلبہ نے خودکشی کی۔ یہ دونوں صوبے بھارت کے انتہائی ترقی یافتہ صوبوں میں شامل ہیں۔ خودکشی کرنے والے طلبہ میں سے ستر فیصد کے والدین کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے کم تھی۔ ماہرین خودکشی کی اونچی شرح کو مالی صورت حال سے بھی جوڑ کر دیکھتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ امتحانات اور کیریئر میں ناکامی کی وجہ سے طلبہ میں مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔ انہیں بعض اوقات نہ تو خاندان کی طر ف سے مدد مل پاتی ہے اور نہ ہی سماجی ادارے ان کی مدد کرتے ہیں۔ بھارت میں پروفیشنل مدد حاصل کرنا بھی مشکل ہے۔ بھارت دماغی صحت کے شعبے میں بنگلہ دیش سے بھی کم خرچ کرتا ہے۔
ماہر نفسیات سیتو کانت ترویدی نے طلبہ میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کے حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس کا علاج یہ ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں دماغی صحت کے بارے میں طلبہ کے اندر بیداری پیدا کی جائے۔ دماغی صحت کو اسکولوں کے نصاب کا حصہ بنایا جائے ۔‘‘ ڈاکٹر ترویدی کا مزید کہنا تھا، ’’چونکہ ایسے حالات میں والدین کو بھی اہم رول ادا کرنا ہوتا ہے اس لیے ان کی تربیت کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔