بھارت: ہندو۔مسلم اتحاد پر مبنی اشتہار، تنازعے کا شکار
14 اکتوبر 2020بھارت میں سونے چاندی کے زیورات بنانے والی معروف کمپنی تنیشق نے اپنے ایک اشتہار میں ہندو مسلم اتحاد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ سخت گیر ہندوؤں کے دباؤ کو برداشت نہ کر سکی اور اپنا اشتہار واپس لینے پر محبور ہو گئی۔ اشتہاری فلم میں ایک مسلم خاندان کو اپنی ہندو حاملہ بہو کے لیے بے بی شاؤر کی تقریب کا اہتمام کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس اشتہار کا نام 'ایکتاوم' یعنی یکجہتی ہے تاہم جیسے ہی یہ منظر عام پر آیا دائیں بازو کے سخت گیر لوگوں نے اسے ٹرول کرنا شروع کردیا۔
سوشل میڈیا پر زبردست ٹرولنگ کے بعد کمپنی نے مذکورہ اشتہار کو ہٹا لیا ہے۔ بھارت کی معروف کمپنی تنیشق کا تعلق ٹاٹا گروپ سے ہے جو بھارت کی بڑی کمپنیوں سے میں ایک ہے۔ کمپنی نے اپنے ایک بیان میں کہا، ''عوام کے جذبات مجروح ہونے کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے اپنے ملازمین، شراکت داروں اور دیگر اسٹاف کی حفاظت کے مد نظر اس اشتہار کو واپس لے لیا ہے۔''
کمپنی نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ آیا اس اشتہار کے ریلیز کرنے سے اس کے ملازمین کو دھمکیاں ملی تھی یا نہیں۔ البتہ بیان میں کہا گیا کہ ایکتاوم کا نظریہ اس مشکل وقت میں مقامی سطح پر مختلف خاندانوں اور ہر شعبہ حیات کے لوگوں کو ایک ساتھ خوشیاں منانے کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
تنیشق تنقید کی زد میں
اس اشتہار کے آنے فورا بعد تنیشق پر ہر جانب سے یہ کہہ کر نکتہ چینی ہونے لگی کہ یہ دو فرقوں کے درمیان شادی کو فروغ دینے کا اشتہار ہے۔ ٹویٹرپر ''بائیکاٹ تنیشق'' ٹرینڈ کرنے لگا اور متعدد لوگ اس پر 'لو جہاد' کو فرغ دینے کا الزام عائد کرنے لگے۔ بھارت میں سخت گیر ہندو تنظیمیں مسلمانوں پر ہندو لڑکیوں کو لبھا کر شادی کر کے مسلمان بنانے کا بے بنیاد الزام عائد کرتی ہیں اور وہ اس کے لیے وہ 'لو جہاد' کی اصطلاح استعمال کرتی ہیں۔
بعض صارفین نے تو یہاں تک الزام عائد کر دیا کہ اس اشتہار میں صرف مسلم طرز کے زیورات کو ہی فروغ دیا گیا ہے۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کھیم چند شرما کا کہنا ہے کہ اس اشتہار میں ہندو لڑکی کی مسلم خاندان میں شادی کو فروغ دینے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''آپ ایک مسلم بہو کو ہندو خاندان کے ساتھ کیوں نہیں دکھاتے؟ ایسا لگتا ہے جیسے آپ لو جہاد کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور صرف ایک عقیدے کو فروغ دے رہے ہیں۔''
اداکارہ کنگنا رناؤت بھی اس تنازعے میں کود پڑیں۔ وہ ان افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس اشتہار پر سب سے پہلے ناراضگی کا اظہار کیا اور لکھا کہ ان کی نظر میں یہ بہت غلط ہے۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ لو جہاد کو فروغ دیتا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ایک ہندو کے طور پر ہمیں بیدار رہنے کی ضرورت ہے کہ دہشتگرد تخلیق کار ہمارے ذہنوں میں کیا بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔''
حالانکہ اس اشتہار میں یہ ڈائیلاگ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ مسلم معاشرے میں بے بی شاؤر جیسی کوئی تقریب نہیں ہوتی ہے اور اس حوالے سے جب بہو اپنی ساس سے پوچھتی ہے کہ ایسا مسلم سماج میں تو ہوتا ہی نہیں ہے؟ اس پر ساس کہتی ہے، ''بیٹی کو خوش رکھنے کے لیے تو ہر رسم ہوتی ہے۔''
اس نفرت انگیز مہم کے بعد تنیشق کی ہولڈنگ کمپنی ٹائٹن کے نیشنل ایکسچینج میں شیئرز دو اعشاریہ پانچ فیصد تک گر گئے۔
کئی سرکردہ سیاسی رہنماؤں نے اس تنازعہ پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹاٹا گروپ تعصب کے سامنے جھک گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس موقع پر رتن ٹاٹا کو اپنے موقف پر قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ کانگریس کے ششی تھرور نے لکھا کہ متعصب اس خوبصورت اشتہار کے ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کو اجاگر کرنے کے لیے تنیشق کے بائیکاٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں، ''آخر وہ دنیا میں ہندو مسلم اتحاد کی طویل ترین علامت بھارت کا بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے ہیں؟''
ہندو مسلم یکجہتی پر مبنی اس اشتہار کو سخت گیر ہندوؤں کے دباؤ میں ایسے وقت واپس لیا گیا ہے جب ملک میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ نا روا سلوک اور ان حقوق کے تحفظ کے حوالے سے بھارت پر نکتہ چینی ہو رہی ہے۔
انکیتا مکھوپادھیائے/ صلاح الدین زین، نئی دہلی