بھارت، یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد خود کشی پر مجبور
19 ستمبر 2022رواں سال اگست میں جاری ہونے والی اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت میں خودکشی سے مرنے والوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے لوگوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
بھارت میں 2021ء میں تقریبا ایک لاکھ چونسٹھ ہزار خود کشی کے واقعات رونما ہوئے اور ان میں سے بیالیس ہزار خودکشی کرنے والے یومیہ مزدور تھے۔ یعنی اپنی جان لینے والے ہر چار میں سے ایک باشندہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والا مزدور ہوتا ہے۔ دہلی میں مقیم ماہر نفسیات اچل بھگت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ملک میں خود اپنی جان لینے والے افراد کی تعداد اور خود کشی کی کوششوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم یہ تعداد بتائے گئے اعداد وشمار سے بھی زیادہ ہونے کا امکان ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ غربت کئی طرح سے دماغی مسائل کا موجب بن سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق خودکشی کے رجحانات میں اضافے کی وجہ بیروزگاری، غربت، قرض اور اجرتوں میں کٹوتی جیسے مسائل ہو سکتے ہیں۔
بھگت نے خود کشی کے بڑھتے واقعات کے محرکات کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر اجرت پر کام کرنے والے افراد کو اس بات کی پریشانی رہتی ہے کہ وہ اتنی کم رقم میں کفالت کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے افراد پدرانہ معاشرے میں ایک مرد ہونے کے ناطے اپنے کردار کو پورا نہ کرنے پر احساس جرم کا شکار ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق منشیات کا استعمال اور نفسیاتی عوارض جیسے عوامل ان اجرت پر کام کرنے والے کارکنوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ بھگت کے مطابق اس صورتحال میں تبدیلی لانے کے لیے احساس تحفظ کے ساتھ پائیدار معاش، ذہنی صحت اور خودکشی سے بچاؤ کی خدمات تک رسائی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔
کورونا وبا اور اجرتوں میں کمی
بھارت کی 1.3 بلین سے زیادہ آبادی میں سے تقریباً 450 ملین غیر رسمی معیشت سے منسلک ہیں۔ اس ملک کے نصف سے زائد مزدور روزانہ صرف دو سو سے چار سو روپے ہی کما پاتے ہیں۔ غیر ہنر مند افراد کے لیے یہ اجرت طے شدہ سے بھی کم ہوتی ہے، جس کے باعث یہ لوگ مقروض ہو جاتے ہیں اور استحصال کا شکار ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔
عظیم پریم جی یونیورسٹی اور سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں کے اشتراک سے کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق کورونا کے باعث یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی آمدنی میں شدید کمی واقع ہوئی، جس کے نتیجے میں غربت میں بھی اضافہ ہوا۔ خواتین اور کم عمر مزدور اس صورتحال سے ناقابل تلافی حد تک متاثر ہوئے۔
2020ء کے اواخر سے لے کر 2021ء کے آوائل تک یومیہ اجرت پر کام کرنے والے زیادہ تر لوگوں کو کام کے حصول کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ریئل اسٹیٹ، تعمیرات، انفراسٹرکچر اور شہری ترقی جیسے شعبوں کے منصوبوں کو کورونا وبا کے باعث دوبارہ شروع کرنے میں کافی وقت لگا۔
خودکشی کی روک تھام انڈیا فاؤنڈیشن کے بانی نیلسن ونود موسی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ذریعہ معاش کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے افراد کو اکثر نقل مکانی کرنا پڑتی ہے۔ ان کے پاس کوئی بچت نہیں ہوتی اور وہ قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘
اجرت میں اضافہ فلاح و بہبود سے منسلک ہے
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ مطالعہ بتاتا ہے کہ کس طرح کم اجرت اور خودکشی کے خطرات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ خود اپنی جان لینے کا یہ رجحان مالی تناؤ، سماجی اور اقتصادی استحکام کی کمی اور قرض جیسی کمزوریوں کا ایک پیچیدہ نمونہ پیش کرتا ہے۔‘‘
نئی دہلی کی ایک اور ماہر نفسیات انجلی ناگپال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے اکثر لوگ اپنے خاندان کے اہم کمانے والے ہوتے ہیں، ''ان کی محدود تعلیمی یا پیشہ ورانہ مہارتوں کی وجہ سے اگر انہیں کام سے نکال دیا جاتا ہے یا انہیں مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس حالت میں نہیں ہوتے کے وہ اپنا پیشہ تبدیل کریں یا دوست احباب سے مدد طلب کریں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اپنے کام اور مالی پریشانیوں کے باعث ایسے افراد اپنی ذاتی زندگی میں جدوجہد کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ اس طبقے میں کسی کی ذہنی صحت کے مسائل سے آگاہ رہنا کوئی ترجیح کی بات نہیں۔ لیکن سماجی اور معاشی حفاظتی اقدامات کے بغیر اور ذہنی صحت کی بہبود تک رسائی کے بغیر بہت سے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے افراد اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔
انڈیا فاؤنڈیشن سے منسلک ونود نے اس بات پر زور دیا کہ خودکشی کی روک تھام کے لیے جو عوامل کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں وہ ہیں، صحت کا بیمہ، قرض ادا کرنے کے لیے امداد، سماجی تحفظ، صحت کے سہولیات تک آسان رسائی۔ اسی طرح صحت عامہ کی ایک ایسی مہم شروع کی جانا چاہیے، جو یہ ظاہر کرے کہ سول سوسائٹی ان افراد کی پرواہ کرتی ہے۔