1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بہت مشکل وقت تھا لیکن اب بہتر ہے‘

6 جولائی 2011

وادی سوات کو طالبان کے کنٹرول سے آزاد کرائے ہوئے دو سال سے زائد کا وقت گزر چکا ہے۔ لیکن آج بھی وہاں کےکچھ باسی اس دور کو یاد کرکے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک محمد کریم بھی ہیں۔

https://p.dw.com/p/11qVN
تصویر: Abdul Sabooh

محمد کریم کے ذہن میں آج بھی نقش ہے کہ کس طرح طالبان دور میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ برے دن گزر چکے ہیں اور طالبان اب ماضی کا حصہ ہیں۔’’میرے خیال میں اب طالبان کبھی دوبارہ یہاں نہیں آ سکیں گے‘‘۔ محمد کریم کا سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کی فروخت کا کاروبار تھا۔ جولائی2007ء میں، جب سوات میں حکومت کی عملداری ختم ہو گئی تھی، تو طالبان نے زبردستی محمد کریم کا کاروبار بند کروا دیا۔ اسلامی قوانین کے نام پر مولانا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ علاقے میں دہشت پھیلاتے تھے، اسکولوں کو نذر آتش کیا گیا، معمولی غلطیوں پر سخت سزائیں دی جاتی تھیں اور مخالفین کے سر تک قلم کیے گئے۔

Maulana Fazlullah Taliban Führer von Swat
مولانا فضل اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ علاقے میں دہشت پھیلاتے تھے، محمد کریمتصویر: AP

اپریل 2009ء میں پاک فوج نے سوات اور اس سے ملحقہ اضلاع بنوں اور دیر میں طالبان کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اس دوران 20 لاکھ سے زائد افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس طرح 2009ء کے موسم گرما میں ہی فوج نے ان علاقوں کا کنٹرول دوبارہ سے اپنے ہاتھوں میں لینے کا دعوی کیا۔

اس بات کو دو سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی سوات کے صدر مقام مینگورہ اور دیگر علاقوں میں بھاری تعداد میں فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ محمد کریم نے بتایا کہ جب طالبان نے انہیں شدید نتائج کی دھمکی دی تو وہ اپنا کاروبار بند کرنے پر ہی مجبور ہو گئے۔ ان کے بقول دکان کی بندش کے بعد گزارا کرنا بہت دشوار ہو گیا تھا۔’’ہم اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں لیکن ایک بات مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آتی کہ اس تیزی سے طالبان کہاں سے آئے اور وہ ایک دم کہاں غائب ہو گئے‘‘۔

Pakistan Flüchtlinge aus dem Swat-Tal
آپریشن کی وجہ سے 20 لاکھ سے زائد نقل مکانی پر مجبور ہوئےتصویر: Abdul Sabooh

بہرحال اب حالات بہت بہتر ہیں اور مینگورہ سمیت دیگر شہروں میں بھی بازار اور ریستوران رات دیر گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ تاہم مقامی رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وادی میں اتنی بڑی تعداد میں پولیس اور فوج کی موجودگی کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت: امتیاز احمد