1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیلاروس کے صدر کو اپنے قتل کا خدشہ، حکم نامے پر دستخط کر دیے

9 مئی 2021

مشرقی یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کو بظاہر اپنے قتل کا خدشہ ہے اور انہوں نے ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں، جس کے تحت ان کی موت کے بعد صدارتی اختیارات ایک سلامتی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔

https://p.dw.com/p/3tA09
بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو اپنے تینوں بیٹوں کے ہمراہ ایک سرکاری فوجی تقریب میںتصویر: Natalia Fedosenko/ITAR-TASS/imago images

سابق سوویت یونین کی جمہوریہ بیلاروس کے سرکاری خبر رساں ادارے بیلٹا نے بتایا کہ اگر صدر لوکاشینکو کسی دوسری وجہ سے بھی اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نا رہے، تو بھی ان کے اختیارات ملکی سکیورٹی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔

یورپی یونین کے رہنما بیلاروس پر پابندی عائد کرنے پر رضامند

Archivbild I Alexander Lukaschenko 1995
صدر لوکاشینکو انیس سو چورانوے سے اقتدار میں ہیںتصویر: Victor Drachev/epa/dpa/picture-alliance

اس سے قبل اس یورپی ملک میں نافذ قانون یہ تھا کہ اگر صدر کا انتقال ہو جائے یا وہ اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نا رہیں، تو ان کے اختیارات کی وزیر اعظم کو منتقلی لازمی تھی۔

بیلاروس، ریاستی اہلکاروں نے خاتون اپوزیشن رہنما کو حراست میں لے لیا

ایسی صورت میں وزیر اعظم کو نئے صدر کی حلف برداری تک صدارتی فرائض بھی انجام دینا ہوتے تھے۔ اب لیکن دارالحکومت منسک میں صدر لوکاشینکو کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔

اقتدار کے ملکی ڈھانچے میں تبدیلی

صدر لوکاشینکو نے ابھی گزشتہ ماہ ہی کہا تھا کہ وہ بیلاروس میں اقتدار کا ڈھانچہ تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے ہفتے کی شام جس صدارتی فرمان پر دستخط کر دیے، وہ دراصل ملک میں اختیارات کی ہنگامی منتقلی کے قانون میں تبدیلی کا عمل ہے۔

اپنے اس ارادے کا اظہار لوکاشینکو نے گزشتہ ماہ اپریل 1986ء میں چرنوبل کے ایٹمی حادثے سے متاثرہ ملکی علاقوں کے ایک دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا۔

تب انہوں نے صحافیوں سے پوچھا تھا، ''آپ ہی بتائیے، کل اگر صدر نا رہے، تو اس کی ضمانت کون دے گا کہ ملک میں سب کچھ معمول کے مطابق اور ٹھیک ٹھاک ہی رہے گا؟ کوئی بھی نہیں!‘‘

استعفیٰ دو، بیلاروس میں صدر لوکاشینکو کے خلاف مظاہرے

تب اپنے اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے لوکاشینکو نے کہا تھا، ''میں ایک صدارتی فرمان جاری کروں گا، اس بارے میں کہ ملک میں اقتدار کا ڈھانچہ اور اختیارات کی منتقلی کے نظام کیسے ہوں گے۔ اگر کسی دن صدر کو گولی مار دی جائے، تو اختیارات سکیورٹی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔‘‘

صدارتی فرمان کے مطابق اس سلامتی کونسل کی سربراہی ملکی وزیر اعظم کریں گے۔

1994 سے برسراقتدار صدر

بیلاروس کے صدر لوکاشینکو کی عمر اس وقت 66 برس ہے اور وہ 1994ء سے اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔

وہ گزشتہ برس اگست میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں اس عہدے پر دوبارہ منتخب کر لیے گئے تھے۔

ان انتخابات کی شفافیت پر تاہم ملکی اپوزیشن اور بیرونی دنیا دونوں کی طرف سے کئی سوالات اٹھائے گئے تھے۔

انتخابی دھاندلی، بیلاروس کے صدر لوکاشینکو پر پابندی

گزشتہ برس لوکاشینکو کے دوبارہ انتخاب کے بعد ملک میں احتجایی مظاہرے بھی شروع ہو گئے تھے اور مظاہرین ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ مگر حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کچل دیا تھا۔ تب اپنے استعفے کے مطالبات کے حوالے سے صدر لوکاشینکو نے کہا تھا کہ وہ صرف اسی وقت اپنے عہدے سے دستبردار ہوں گے جب ملک میں کوئی احتجاجی مظاہرے نا ہو رہے ہوں اور کوئی 'انقلابی سرگرمیاں‘ بھی جاری نا ہوں۔

م م / ب ج (روئٹرز، ڈی پی اے)