بین الاقوامی افغانستان کانفرنس
28 جنوری 2010اس کانفرنس کے آغاز پر میزبان ملک برطانیہ کے وزیراعظم گورڈن براؤن نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری آئندہ سال کے وسط تک افغانستان کی صورتحال کو مستحکم بنانے کی بھر پور کوششیں کرے۔ افغان صدر حامد کرزئی اس کانفرنس کے دوران اپنی حکومت کے ایک پانچ سالہ منصوبے کا جائزہ پیش کر رہے ہیں۔ سال 2014 تک افغانستان میں تعمیر نو کی صورتحال میں واضح بہتری اور سلامتی کی زیادہ تر ذمہ داریاں افغان دستوں کو منتقل کرنے کے علاوہ کرزئی طالبان سے مفاہمت کے حوالے سے بھی تفصیلات بیان کریں گے۔
عشروں سے جنگوں اور پُر تشدد واقعات کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک افغانستان کے مستقبل سے معلقہ اِس ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں دُنیا کے ستر ملکوں سے گئی ہوئی سرکردہ شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔ اِس کانفرنس میں شریک وُزرائے خارجہ اور دیگر مہمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے میزبان برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ عالمی برادری افغانستان میں امن و استحکام اور تعمیرِ نو کے لئے اپنی فوجی اور غیر فوجی سرگرمیوں میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ براؤن نے کہا:’’آج بین الاقوامی برادری کے طور پر ہم نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ ہماری فوجی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک اچھی حکومت اور اقتصادی ترقی کے لئے بھی اُتنی ہی کوششیں کی جانی چاہییں۔ فوجی سرگرمیوں میں اضافے کے حساب سے سیاسی اور سماجی سرگرمیاں بھی تیز تر کی جانی چاہییں۔ ہم نے اِس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ہم ایک کے بعد ایک صوبے میں سلامتی کی ذمہ داریاں منتقل کریں گے اور اِس سارے عمل کو مستحکم کرنے کے لئے ایک مربوط غیر فوجی منصوبہ وضع کیا جائے گا۔‘‘
گورڈن براؤن کے ہمراہ اِس کانفرنس کے شریک میزبان افغان صدر حامد کرزئی ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی برادری سے ایک بار پھر مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا:’’آئندہ دو تا تین برسوں میں ہمارے افغان دَستے زیادہ ذمہ داریاں سنبھال لیں گے۔ تب اُن علاقوں سے، جہاں سلامتی کے فرائض ہم سرانجام دے رہے ہوں گے، بین الاقوامی دَستے ہٹائے جا سکتے ہیں۔ اِس طرح بین الاقوامی برادری اپنی پوری توجہ ہمارے ملک میں غیر فوجی تعمیرِ نو پر مرکوز کر سکتی ہے۔ ہم اگلے پانچ برسوں میں اپنے پورے ملک کی سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھالنا چاہتے ہیں۔‘‘
تاہم امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کے کانفرنس سے خطاب کا جو مسودہ پہلے ہی تقسیم کر دیا گیا، اُس کے مطابق بین الاقوامی فوجی دَستوں کی جانب سے سلامتی کی ذمہ داریاں بتدریج مقامی سیکیورٹی فورسز کو سونپنے کے منصوبوں کا مطلب افغانستان سے انخلاء کی حکمتِ عملی نہیں ہے۔ اِس مسودے کے مطابق امریکہ نیٹو کے ٹرانزیشن پلان کا حامی ہے لیکن تمام دیگر فریقین کی طرح انتہا پسندوں پر بھی، جو اتحادی فورسز کو ناکام ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں، یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ اِس منصوبے کا مطلب اِس ملک سے فوجی دَستے واپس بلانے کی حکمتِ عملی نہیں ہے۔
لندن کی یہ کانفرنس منظم کرنے میں اقوامِ متحدہ کا ادارہ بھی تعاون کر رہا ہے، جس کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کانفرنس کے تمام شرکاء سے اپیل کی کہ وہ افغانستان میں اداروں کے استحکام کے لئے مدد اور تعاون فراہم کریں لیکن ایسا کرتے ہوئے افغانوں کی ترجیحات کو اولین اہمیت دی جانی چاہیے۔ جرمن وزیر خارجہ گِیڈو ویسٹر ویلے نے لندن کانفرنس کے شرکاء کو جرمنی کے اُس منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کیا، جس کا مقصد مالی ترغیبات کے ذریعے افغان جنگجوؤں کو طالبان کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ کرنا ہے۔
ویسٹرویلے نے کہا:’’ہم ایک ایسا پُل بنانا چاہتے ہیں، جس پر چل کر طالبان کے ساتھی واپس پُر امن معاشرے میں آ سکیں۔ یہ پیشکش کٹر دہشت گردوں کے لئے نہیں کیونکہ اُن کو قائل نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ پیشکش اُن غریب افغان شہریوں کے لئے ہے، جنہیں دو سو ڈالر دے کر ساتھ ملایا جاتا ہے، جو لکھ پڑھ نہیں سکتے، جو لڑائی سے تنگ ہیں اور واپس آنا چاہتے ہیں۔‘‘
جرمنی نے اِس مجوزہ فنڈ کے لئے پچاس ملین یورو فراہم کرنے کی پیشکش کی ہے۔
اس کانفرنس میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون، نیٹو سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک کے اعلیٰ عہدیدار بھی شرکت کر رہے ہیں۔ لندن کانفرنس میں بین الاقوامی برادری کی جانب سے کابل حکومت کو عسکری و مالی تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانیوں کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کے انخلاء سے متعلق لائحہ عمل طے کرنے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔