بین الاقوامی سطح پر ہتھیاروں کا کنٹرول، بڑے ممالک کی مخالفت
18 جولائی 2012اقوام متحدہ ہتھیاروں کی تجارت کے حوالے سے ’زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی معیارات‘ قائم کرنا چاہتی ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے نمائندے ہتھیاروں کی تجارت کے کنٹرول کے لیے ’سنہری اصول‘ متعارف کروانے کے حق میں ہیں۔
نیویارک میں جاری اقوام متحدہ کی اس خصوصی کانفرنس میں شریک غیر سرکاری تنظیم آکسفیم جرمنی کے رابرٹ لنڈنر کا کہنا ہے کہ ٹینکوں، بندوقوں یا گولہ بارود ایسے ملکوں کو فروخت نہیں کیا جانا چاہیے، جہاں یہ خدشہ ہو کہ انہیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا پھر جارحانہ جنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رابرٹ لنڈنر کے مطابق ان ملکوں کو بھی جنگی ساز و سامان نہیں بیچا جانا چاہیے، جہاں علاقائی استحکام خطرے سے دوچار ہو سکتا ہو۔ ان غیر سرکاری تنظیموں کا اصرار ہے کہ بھاری اسلحے کے ساتھ ساتھ ہلکے ہتھیاروں کی خرید و فروخت کے لیے بھی بین الاقوامی قوانین متعارف کروائے جائیں۔
اربوں ڈالر کی کمائی
موت کا یہ کاروبار انتہائی منافع بخش ہے۔ اسٹاک ہولم میں قائم معروف انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ’سپری‘ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سن 2010ء میں دنیا کی سینکڑوں اسلحہ ساز کمپنیوں نے 410 بلین امریکی ڈالر سے زائد رقم کمائی تھی۔ ان ہتھیاروں میں سے زیادہ تر کی ترسیل بحران زدہ علاقوں میں کی گئی، جہاں مسلح تصادم یا تو مزید بگڑ گئے یا پھر طول پکڑ گئے۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرنے والی پانچ ویٹو طاقتیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بیٹھی ہیں۔
اسلحے کی مارکیٹ میں جرمنی اور اٹلی کے مفادات بھی امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ کے مفادات سے جڑے ہوئے ہیں۔ سپری کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ مالیت کے اعتبار سے دنیا بھر میں 80 فیصد ہتھیار یہی ممالک برآمد کرتے ہیں۔ امریکی اسلحے کی صنعت میں تقریباﹰ تین ملین افراد کام کرتے ہیں جبکہ جرمنی مین یہ تعداد 80 ہزار کے لگ بھگ ہے۔
اُن ممالک میں، جو اسلحے کی خرید و فروخت کے شعبے میں زیادہ سخت بین الاقوامی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، امریکا، روس اور بھارت پیش پیش ہیں۔ بین الااقوامی منڈی میں بھارت ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار ہے۔
سب سے بڑی رکاوٹ ابھی بھی موجود ہے۔ اقوام متحدہ میں اسلحے کی تجارت کے حوالے سے کسی بھی معاہدے تک پہنچنے کے لیے اس کی متفقہ منظوری لازمی ہے۔ اس حوالے سے ہتھیاروں کی تجارت کےکنٹرول کے کسی بھی حتمی معاہدے کی منظوری ستائیس جولائی کو اس کانفرنس کے اختتام پر متوقع ہے۔
G, Mirjam / H, Diana / ia /aa