1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیٹا چین سے نکل کر گھر آجاؤ:باپ بیٹے کی راہ تکتے چل بسا

11 فروری 2020

چین میں کورونا وائرس کے سبب پھنسے پاکستانی طالبعلم ہر وقت اس فکر میں گھل رہے ہیں کہ غیر یقینی کی یہ صورتحال کب تک قائم رہے گی اور آیا اس کا خاتمہ کبھی ہوگا؟

https://p.dw.com/p/3XcT3
Pakistan Flughafen Islamabad - Wiederaufnahme der Flüge nach China
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

 

کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر چین کا شہر ووہان مکمل طور پر  بند پڑا ہے۔ اس شہر کے ایک ہوسٹل میں پی ایچ ڈی کا ایک پاکستانی طالب علم حسن رہتا ہے۔ اس نے گزشتہ جمعرات کو آخری بار پاکستان میں اپنے 80 سالہ والد سے بات کی تھی۔ اس کے والد بہت بے چین تھے اور انہوں نے اُس سے درخواست کی تھی کہ وہ کسی طرح گھر واپس لوٹ آئے۔ چوبیس گھنٹے ہی گزرے تھے کہ حسن کے والد دل کے عارضے کے سبب چل بسے۔

حسن اُن ایک ہزار سے زائد پاکستانی طلبا میں شامل ہے، جو کورونا وائرس کے مرکز چین کے صوبے ہوبی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان پاکستانی طلبا کو حکومت نے کہہ دیا ہے کہ ان کی وطن واپسی خارج از امکان ہے۔’’ اس وقت انہیں میری ضرورت ہے، میری ماں کو میری ضرورت ہے ‘‘۔ کمپیوٹر کے شعبے میں پی ایچ ڈی کا طالبعلم حسن تڑپ رہا ہے۔ اپنے اہل خانہ کے تحفظ کے لیے وہ اپنی شناخت مخفی رکھنا چاہتا ہے اور اپنا صرف ایک نام بتا رہا ہے۔

China Wuhan Registrierung an Kontrollpunkt eines Wohngebietes
چین اپنی کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے ممکنہ کوششیں کر رہا ہے۔تصویر: Reuters/China Daily

چینی صوبے ہوبی میں دیگر پاکستانی طلبا نے حسن کے تحفظات کے بارے میں بتایا اور کچھ تو اُس کی حکومت کے رد عمل پر تنقید کر رہے ہیں۔ دیگر پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور بھارت نے صوبہ ہوبی سے اپنے تمام شہریوں کو نکال لیا ہے، جہاں ووہان واقع ہے اور یہاں کورونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

پاکستانی طلباء اور ان کے کنبے ، بشمول جوان بچے، دن میں بیشتر حصے میں گھر کے اندر پھنسے رہتے ہیں۔ چار پاکستانی طلبا نے کہا کہ ان کی افسردگی اور اضطراب بڑھتا ہی جارہا ہے، ان کے اندر وائرس کا خوف اورخدشات تشویشناک حد تک پائے جاتے ہیں۔ وہ ہر وقت اس فکر میں گھل رہے ہیں کہ غیر یقینی کی یہ صورتحال کب تک قائم رہے گی اور آیا اس کا خاتمہ کبھی ہوگا؟

گزشتہ اتوار کو ایک ٹوئٹر پیغام میں وزیر مملکت برائے صحت ظفر مرزا نے تحریر کیا،''چین میں میرے بہت ہی پیارے طلبا.. ہم شدت سے اعلیٰ سطح پر صورتحال کے بارے میں بات چیت کر رہے ہیں۔ غور کر رہے ہیں اور تباہ کن  کورونا وائرس کے تمام مضمرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس ممکنہ عالمی وبائی مرض کے تمام پہلوؤں پر غور و خوص کے بعد موثر ترین فیصلہ کریں گے۔‘‘

حسن نے اپنی یونیورسٹی سے رابطہ کیا، جس نے اس کی مدد کرتے ہوئے بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ کی مدد سے حسن کو نکالنے کی کوشش کی تاہم چینی حکام نے ہوبی میں اُسے بتایا کہ اگر پاکستانی سفارتخانہ اُن سے رابطہ کرے تو اُسے باہر نکالا جاسکتا ہے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

China Corona-Krankenhaus in Wuhan
چین میں پھنسے ہوئے غیر ملکیوں کے گھر والوں میں خوف و ہراس بڑھتا جا رہا ہے۔تصویر: Imago-Images/Xinhua/Xiong Qi

اس پر خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستانی وزارت خارجہ کی ایک  ترجمان سے رابطہ کیا اور اُن سے اس بارے میں تبصرہ یا بیان دینے کو کہا تاہم ترجمان نے اس کا جواب نہیں دیا۔

چین کی وزارت خارجہ نے منگل کے روز کہا،''وہ ممالک جو اپنے شہریوں کو گھر لے جانا چاہتے ہیں،ان کے لیے چین متعلقہ انتظامات فراہم کرے گا اور اس سلسلے میں تمام ضروری مدد کے لیے تیار ہے۔ یہ امداد بین الاقوامی ضابطوں اور چین کے وبائی کنٹرول کے داخلی اقدامات کے تحت فراہم کی جائے گی۔‘‘

حسن  کے مطابق اُسے پیر کو ایک پاکستانی اہلکار نے بتایا تھا کہ تمام پاکستانی طلباء کو چین سے نکال لیا جائے گا۔ لیکن صحت اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے امور کے وزیر نے ووہان میں طلباء کے ساتھ ایک ویڈیو کانفرنس کال کی جس میں فوری انخلاء کو مسترد کردیا گیا۔

ک م/ ع ا/ رائٹرز

 

 

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں