بیٹے کی جنگ لڑنے والا زندگی کی جنگ ہار گیا
2 دسمبر 2019کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں قتل ہونے والے نقیب اللہ محسود کے والد انتقال کر گئے۔ محمد خان محسود طویل عرصے سے کینسر کی بیماری سے نبرد آزما تھے۔ ان کے بیٹے فرید اللہ نے والد کے انتقال کی خبرکی تصدیق کردی ہے ۔ محمد خان محسود کو جنوبی وزیرستان میں ان کے آبائی علاقے میں دفنایا جائے گا۔
محمد خان محسود کا نام پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا جب وہ اپنے بیٹے نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد کراچی آئے اور انصاف کی اپیل کی۔ نقیب اللہ قتل کیس کئی مہینوں تک پاکستان کے میڈیا پر ڈسکس کیا جاتا رہا۔ نقیب اللہ کے قتل کا واقعہ اس وقت سامنے آیا تھا جب 13 جنوری 2018ء کو کراچی ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں اس وقت کے ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا تھا۔ لیکن تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد نہیں بلکہ عام شہری تھے جنہیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ اسی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والوں میں وزرستان کا نوجوان نقیب اللہ محسود بھی تھا۔ چئیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیرداخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں راؤ انوار کو عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا۔
نقیب اللہ محسود کے والد اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی آئے اور اپنے بیٹے کے قاتلوں کی گرفتاری کے لئے دھرنا دیا۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر ہائی لائٹ ہو جانے کے بعد سپریم کورٹ نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔ 24 جنوری 2019 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ محسود کو معصوم قرار دیا تھا۔ عدالت کے از خود نوٹس کے بعد راؤ انوار روپوش ہو گئے اور اسلام آباد ائیرپورٹ سے دبئی فرار ہونے کی کوشش بھی کی گو کہ وہ فرار نہ ہو سکے۔ کچھ عرصہ بعد راؤ انوار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے لیکن بعد ازاں اسے رہا کر دیا گیا۔
محمد خان محسود کی کہانی پاکستان کے نظام انصاف کے لیے سوال ہے جہاں عام آدمی انصاف کے حصول کی راہ میں دھکے کھاتا اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے لیکن انصاف نہیں مل پاتا۔ وہ ایک طویل عرصے تک انصاف کے منتظر رہے لیکن انصاف نہ مل پایا۔