1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بی آر ٹی منصوبہ، پشاور کی خواتین خوش ہیں

من میت کور
20 اگست 2020

جی ہاں! پشاور کی تاریخ میں پچیس ماہ قبل پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے بی آر ٹی منصوبہ شروع کیا گیا تو چھ ماہ میں اس منصوبے کے مکمل ہونے کی نوید سنائی گئی اور شہر کا شہر اس کے لیے کھود دیا گیا۔

https://p.dw.com/p/3hDqD
Pakistan | Bloggerin | Manmeet Kour
تصویر: privat

مگر منصوبہ مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت میں پورا نا ہو سکا۔  بی آر ٹی پر جاری کام پشاور کے رہائشیوں کے لیے ایک عذاب محسوس ہونے لگا۔ شہری پریشانی سے دوچار ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس منصوبے کو لے کر پی ٹی آئی کو خوب آڑھے ہاتھوں لیا اور مسلسل تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ پچیس ماہ قبل جب بی آر ٹی پر کام کا آغاز ہوا تو اس منصوبے کی ممکنہ لاگت 49 بلین بتائی گئی مگر تاخیر اور منصوبے میں تبدیلیوں کے باعث بی آر ٹی کی لاگت 78 بلین تک پہنچ گئی۔ 

تاہم ان تمام تر مشکلات کے باجود آج پشاور کے رہائشی خوش نظر آتے ہیں۔ پشاور انتظامیہ کے مطابق اس منصوبے سے غریب اور متوسط طبقہ مستفید ہو گا کیونکہ پشاور کے شہری آج سے قبل چمکنی سے کارخانوں مارکیٹ تک کا سفر لوکل ٹرانسپورٹ میں کرتے، جس کے لیے انہیں 80 روپے تک کرایہ دینے کے ساتھ ساتھ گاڑی، ویگن یا چنگچی رکشہ تبدیل کرنا پڑتا تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ صرف پچاس روپے میں شہری چمکنی سے کارخانوں مارکیٹ کا یہ سفر صاف اور ٹھنڈی بس میں کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: 

’لاپتہ افراد‘ ایک طلسمی کھیل


بی آر ٹی منصوبہ سے سب سے زیادہ خوش وہ خواتین ہیں، جن کو سفری مشکلات کے ختم ہونے کا یقین بھی نہیں تھا۔ سیٹلائٹ ٹاؤن کی فریحہ کور کہتی ہیں کہ اسکول آفس یا بازار جانا مشکل ترین مرحلہ تھا، جو اب آسان ہو چکا ہے۔ پہلے گھنٹوں ایک سٹاپ پر سواری کا انتظار کرنا اور پھر منزل پر پہنچنے کے لیے آدھے راستے میں سواری بدلنا مشکل تھا۔ وہ کبھی کبھار  سوچتی تھیں کہ کیا یہ مشکلات بھی آسان ہوں گی؟ 

میری دوست فاطمہ نازش بھی بی آر ٹی کی تکمیل سے خوش ہے۔  وہ کہتی ہیں، ''پردہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے اور لوکل ٹرانسپورٹ میں سفر کے لیے جہاں طویل انتظار کی زحمت تھی، وہیں سواری ملنے کے بعد خواتین کی مخصوص نشستوں پر جگہ ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر اب بی آر ٹی میں خواتین کی مخصوص نشستیں بھی موجود ہیں اور ہر پانچ منٹ بعد کی یہ سروس انتظار میں کمی بھی لے آئی ہے۔‘‘

انتظامیہ کی جانب سے بی آر ٹی کے افتتاح کے موقع پر ایک لاکھ زو کارڈ کی مفت تقسیم نے اس منصوبے کی کامیابی پر مہر ثبت کر دی ہے کیونکہ ایک لاکھ زو کارڈ پہلے دو دن میں ہی تقسیم کر دیے گئے تھے اور زو کارڈ کے حامل افراد چمکنی سے حیات آباد تک کا سفر دس روپے میں کر سکیں گے۔ پچیس ماہ کا انتظار  تو تھا لیکن اب پشاور کے مزدور، غریب اور متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد انتہائی خوش اور پرجوش دیکھائی دیتے ہیں۔ وہ خوش ہیں کہ پشاور کی تاریخ میں یہاں کے عوام کو سفری فائدہ پہنچانے والا سب سے بڑا منصوبہ کامیاب ہوا ہے۔