1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بی جے پی نے الیکشن کمیشن کے مشورے کو ٹھکرادیا

افتخار گیلانی، نئی دہلی23 مارچ 2009

بھارت میں الیکشن کمیشن نے ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نوجوان لیڈر ورون گاندھی کی مسلم مخالف تقریرپر ان کی سرزنش کرتے ہوئے پارٹی کو مشورہ دیا کہ وہ انتخابات میں انہیں اپنا امیدوار نہ بنائے۔

https://p.dw.com/p/HIAJ
بے جے پی کے امیدوار ورون گاندھیتصویر: AP

الیکشن کمیشن کے اس مشورے کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے بی جے پی نے اسے مسترد کردیا ہے۔ اسی کے ساتھ یہ بحث بھی شروع ہوگئی ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو اس طرح کی ہدایت دینے کا اختیار ہے۔

بھارت کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے پوتے اور راجیو گاندھی کے بھتیجے 29 سالہ ورون گاندھی جنوبی ریاست اترپردیش میں پیلی بھیت حلقہ سے بی جے پی کے امیدوار ہیں۔ ان کی والدہ اور آنجہانی سنجے گاندھی کی بیوہ مینکا گاندھی بی جے پی کے رکن کی حیثیت سے اس حلقے کی پچھلے چار مدت سے نمائندگی کرتی رہی ہیں لیکن اپنے بیٹے کو سیاست میں لانچ کرنے کے لئے انہوں نے یہ سیٹ چھوڑ دی۔ ورون گاندھی پر الزام ہے کہ انھوں نے ایک انتخابی جلسے کے دوران مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز جملے استعمال کئے اس کی نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں اور سیکولر تنظیموں نے مذمت کی ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو مشورہ دیا کہ وہ آئندہ عام انتخابات میں انہیں اپنی پارٹی کا امیدوار نہ بنائے لیکن بی جے پی نے الیکشن کمیشن کے اس مشورے کو یکسر مسترد کردیا اور کہا کہ ورون گاندھی ہی اترپردیش میں پیلی بھیت حلقے سے ان کے امیدوار ہوں گے۔

Varun Gandhi Vorsitzender der Bharatiya Janata Partei 2
ورون گاندھی نے ان الزامات کی تردید کی ہےتصویر: AP

بی جے پی کے ترجمان بلبیر پنج نے الیکشن کمیشن کے مشورے کو جانبدرانہ قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ کمیشن آخرکس حیثیت اور ضابطے کی بنا پر یہ مشورہ دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا سیاسی جماعت کا کام ہے کہ اس کا کون امیدوار ہوگا اور کون نہیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر امیدوار درست ہوگاتو اسے عوام کی حمایت حاصل ہوگی کیونکہ جمہوریت میں آخری فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہے۔ بی جے پی نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو غیرمعمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پچھلے ساٹھ برسوں کے دوران الیکشن کمیشن نے کبھی بھی اس طرح کا مشورہ نہیں دیا۔ پارٹی نے کہا کہ اگر اس طرح کے مشورے قبول کئے جانے لگے تو اس کے انتہائی دور رس نتا ئج برآمد ہوں گے۔ بلبیر پنج نے الیکشن کمیشن کو ہی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کی طرف سے قصوروار قرار دئے جانے والے اور مجرمانہ امیج رکھنے والے امیدواروں کے معاملے میں کمیشن کیوں خاموش ہے۔

تاہم اس معاملے میں بی جے پی کی اعلی قیادت کے رویے سے پارٹی کے مسلم رہنما خوش نظر نہیں آرہے ہیں۔ پارٹی کے نائب صدر مختار عباس نقوی اور اقلیتی سیل کے صدر سید شہنواز حسین نے ورون گاندھی کے بیان پر شدید نکتہ چینی کی ہے ۔سید شہنواز حسین نے کہا کہ ورون گاندھی کو پہلی مرتبہ پارٹی کا امیدوار بنایا گیا ہے لیکن پارٹی کے انتخابی منشور یاگائیڈ لائن میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ مسلمانوں کو گالی دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن جیتنے کے لئے لوگ کئی ہتھکنڈے اپناتے ہیں لیکن کسی فرقے کو گالی دی جائے اسے قطعی برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔

لیکن بی جے پی کے مخالفین اسے پارٹی کے انتخابی لائحہ عمل کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل بی جے پی ایک طرف کٹر ہندو قوم پرست جماعت کا امیج پیش کرنا چاہتی ہے دوسری طرف اسے مسلم ووٹوں کی اہمیت کا بھی اندازہ ہے۔کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ بی جے پی الیکشن سے پہلے ایک طبقے کو لبھانے کے لئے ایک تجربہ کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہی۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشک منوسنگھوی نے کہا : ’’جولوگ کانگریس کو دیش بھکتی اور اخلاقیات کا درس دیتے ہیں ان کے سامنے آج یہ سوال کھڑا ہے کہ اخلاقی قدروں کا انہیں کس قدر خیال ہے؟ وہ اخلاقیات کی کسوٹی پر خود کو کہاں پاتے ہیں؟ وہ آئینی اداروں پر حملہ کریں گے، نازیبا الفاظ استعمال کریں گے اور اصل موضو ع سے لوگوں کی توجہ ہٹائیں گے یا ایک صاف شفاف سیاست کو اپنائیں گے۔‘‘

کانگریس کے سینئر رہنما راشد علوی نے اس پورے معاملے پر بی جے پی کی اعلی قیادت کی خاموشی کو افسوسناک قرار دیا اور کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ورون گاندھی کو درپردہ پارٹی کے سینئر رہنماوں کی تائید حاصل ہے۔

اس دوران ورون گاندھی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انہیں اپنی صفائی کا موقع نہیں دیا۔ اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ ان کی تقریر کی ویڈیو ریکارڈنگ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے۔ دوسری طرف ورون گاندھی کی چچازاد بہن اور کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کی بیٹی پرینکا گاندھی نے کہا کہ ورون کا بیان انتہائی مایوس کن اور نہرو گاندھی خاندان کی روایات کے برخلاف ہے۔