بے نظیر بھٹو کی برسی پر اُن کے قاتلوں کی گرفتاری کے مطالبات
28 دسمبر 2008اس موقع پر پیپلزپارٹی کے رہنما اورکارکن زار و قطار روتے رہے جبکہ برسی میں شرکت کے لئے آنے والے قافلے حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کامطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے۔
سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے صدر آصف زرداری اور ان کے اہل خانہ بے نظیر بھٹو کی قبر پر نہیں جا سکے۔ گزشتہ سال ستائیس دسمبر کو بے نظیربھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہء عام سے خطاب کے بعد وہاں سے راونہ ہوئی ہی تھیں کہ نامعلوم حملہ آوروں کی گولیوں کانشان بن کر اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ اب ایک سال بعد ان کی برسی کے موقع پر صدر آصف علی زرداری نے نوڈیرو میں ارکان اسمبلی اور وزراء سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ وہ قاتلوں کوجلد بے نقاب کریں گے۔
صدر زرداری کی تقریر سے قبل دومنٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔ زرداری نے اپنی تقریر میں نوازشریف کا نام لئے بغیر ان کی طرز سیاست کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہاکہ وہ پارلیمنٹ کو پانچ سال چلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کمزوریاں ضرور ہیں مگرپاکستان ناکام ریاست نہیں ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ نون کا نام لیے بغیر کہا کہ اب جمہوریت اورملک کے ساتھ مذاق نہیں ہونا چاہیے۔ صدر زرداری نے اپنی تقریرمیں بھارت کا نام لئے بغیر کہا کہ وہ پاکستان کی حفاظت کرنا اور جارحیت کاجواب دینا جانتے ہیں۔
دوسری جانب بے نظیر بھٹوکی معتمد ساتھی ناہید خان برسی کی تقریب میں میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ ان کے شوہر سینیٹر صفدرعباسی گزشتہ روز سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے باہر آ گئے تھے، جب انہوں نے بے نظیربھٹو کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے وزیراعظم گیلانی اور وزیر اعلٰی سندھ کو ہدف تنقید بنایا تھا۔ ناہید خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔
بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر جلسہء عام کو منسوخ کرنے کے حوالے سے بھی کارکنوں میں مایوسی تھی۔ صدر آصف زرداری کو سیکیورٹی حکام نے خود کش حملے کے اندیشے کے پیش نظر جلسہ میں شرکت سے روک دیا تھا۔ وفاقی وزیر اطلاعات شیری رحمان نے اس حوالے سے اخبار نویسیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، بے نظیر بھٹو کی پہلی برسی کے موقع پر سابق وزیراعظم کے قتل کے حوالے سے شکوک وشبہات بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ حکومت کی تمام تر توجہ اقوام متحدہ کی طرف سے تحقیقات کے مطالبے پر مرکوز ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جس بھی نمایاں شخصیت کو قتل کیا گیا، اُس کے قاتل بے نقاب نہیں ہوسکے لہٰذا آہستہ آہستہ بے نظیربھٹو کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے والوں کی آوازیں بھی مدھم ہوتی جائیں گی۔ رفعت سعید (کراچی)