تائیوانی قانون سے چین کے ہم جنس پرستوں میں شادمانی
17 جون 2017چین کی دو خواتین رین ویلین اور ژُو تیان تین ملک سے باہر ایک غیر رسمی تقریب میں باقاعدہ شادی کر چکی ہیں۔ اس موقع پر دونوں خواتین نے چینی معاشرت کے مطابق زرق بسرق لباس پہنے تھے۔ اس شادی کا اندراج چین کے کسی بھی شہر کی لوکل کونسل کے سرکاری رجسٹر میں ممکن نہیں کیونکہ چین ہم جنس پرستوں کی شادی کو تسلیم نہیں کرتا۔
اس شادی کے موقع پر چینی ہم جنس پرستوں نے ایک بحری جہاز کے عرشے پر ہونی والی تقریب میں خوب ہلہ گُلا اور تماشا کیا۔ ایسی ہی کسی شادیاں چین کے کئی ہم جنس پرست جوڑوں کے درمیان چینی شہر شنگھائی سے جاپان کے لیے پانچ روزہ بحری جہاز کے سفر کے دوران طے پائیں ہیں۔ ہم جنس پرستوں سے بھرا یہ بحری جہاز جاپان کے لیے بدھ چودہ جولائی کو روانہ ہوا تھا۔
چھبیس سالہ چینی ہم جنس پرست خاتون رین ویلین کا کہنا ہے کہ چینی معاشرے میں ایک ہی جنس کے درمیان شادی ر چانا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے میں کئی حکومتی اور معاشرتی مشکلات کے ساتھ ساتھ پیچیدگیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ رین کے مطابق یہ ایک ایسا فعل ہے جو تقاضا کرتا ہے کہ ہم جنس پرستوں کو بھی آپس میں شادی کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔
اعداد و شمار کے مطابق چین ہم جنس پرستوں کا سب سے بڑا ملک ہے، جہاں ستائیس ملین سے زائد ہم جنس پرست بستے ہیں۔ چینی شہر شنگھائی میں ملک کی واحد ہم جنس پرستوں کی سالانہ پریڈ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
تائیوانی دستوری عدالت کی جانب سے ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی رچانے کو جائز قرار دینے کے بعد ایسا امکان پیدا ہوا ہے کہ اب چین میں بھی ایسا کرنے کی اجازت دی جائے۔ تائیوانی دستوری عدالت کے فیصلے کے بعد خوشی کے شادیانے چین کے کئی شہروں میں بھی بجے تھے۔