تاج محل کو بھارت کے سیاحتی مقامات سے کیوں نکالا گیا؟
5 اکتوبر 2017میڈیا رپورٹوں کے مطابق اتر پردیش میں سیاحتی مقامات کی فہرست پر مشتمل کتابچے میں تاج محل کو نکال دینے کا فیصلہ اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے کیا ہے۔ اس کتابچے میں ہندوؤں کے مذہبی مقامات کے بارے میں بتایا گیا ہے، جیسے کہ آیودھیا کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ہندؤں کے ایک دیوتا ’رام‘ کی پیدائش کی جگہ ہے۔ اسی کتاب میں ماتھورا ورینداون کا بھی ذکر ہے جس کا تعلق ہندوؤں کے دیوتا کرشنا سے ہے۔ اس سرکاری کتابچے میں اس ریاست کے شہر وارانسی کی مذہبی اور ثقافتی حیثیت کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور سن 2019 میں الہ آباد میں ہونے والے ایک بڑے مذہبی اجتماع کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔
تاج محل کو سترہویں صدی میں مسلمان مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا اور اس کا شمار بھارت کے اہم ترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ گزشتہ برس لگ بھگ ایک کروڑ افراد نے تاج محل کا دورہ کیا تھا۔ اتر پردیش کے سیاحتی کتابچے سے اہم سیاحتی مقامات کی فہرست میں سے تاج محل کو نکال دینے پر کئی افراد نے خدشات اور غصے کا اظہار کیا ہے۔ اتل پرادھان کا تعلق سماج وادی پارٹی سے ہے، انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’یہ تاج کی بے عزتی ہے، یہ بی جے پی کی ذہنیت کی عکاس ہے جو کہ اپنی ثقافت اور مذہبی شناخت بنانے کی کوشش کر رہے ہے۔‘‘ ایک اور سماجی کارکن ڈونو روائے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ایک ہندو ریاست میں ہر وہ چیز جیسے کہ زبان، ثقافت، میوزک یا لائف سٹائل جس کو مسلمانوں نے تخلیق کیا ہے، اسے سماجی اور معاشرتی اعتبار سے غائب کر دنیا مقصد بن گیا ہے۔ بی جے پی ان تمام چیزوں کو ہندو برہمن مذہب سے تبدیل کر دینا چاہتی ہے۔‘‘
یوگی ادھیاناتھ اس سال مارچ میں اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق ادھیاناتھ کو یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ غیر ملکی وفود کو تاج محل کا مجسمہ تحفے میں دیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی وفود کو ہندو مذہب کی مقدس کتابیں بھگود گیتا اور راماین دینی چاہیے۔ بی جے پی کی حکومت نے سن 2017 میں تاج محل کے لیے ’ہماری سنسکریتی ثقافت‘ سکیم کے تحت کوئی رقم بھی مہیا نہیں کی ہے۔ اس سکیم کا مقصد اہم ثقافتی مقامات کی دیکھ بھال پر سرمایہ کاری کرنا ہے۔
سیاحت کی وزیر ریتا ببھااوگانا نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ہمیں غلط سمجھا جا رہا ہے۔ آپ تاج محل کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ ہم صرف دیگر مذہبی مقامات پر لوگوں کی توجہ دلانا چاہتے ہیں۔‘‘ تاہم بھارت میں سینئر صحافی شرت پرادھان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے اور ووٹ حاصل کرنے کے لیے معاشرے کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔‘‘
برطانوی شاہی جوڑے کی آمد، تاج محل کے ساتھ شہر بھرکی صفائی
شاہجہانی مسجد کا حسن ماند کیوں پڑ گیا
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ تاج محل متنازعہ ہوا ہے۔ اپریل 2015ء میں ایک ڈسٹرکٹ عدالت میں چھ ہندو وکیلوں نے ایک پیٹیشن درج کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ تاج محل ہندوؤں کے دیوتا شیوا کا مندر ہے۔ یہ کیس کافی عرصہ عدالت میں چلا تھا جس کے بعد بھارت کے ' ٓآرکیولوجیکل سروے‘ نے کہا تھا کہ تاج محل ایک مقبرہ ہے نا کہ مندر۔