تاريخ ميں کب کب اور کہاں کہاں سے پناہ گزين جرمنی پہنچے؟
9 اپریل 2018فرانس اور برطانیہ جیسے بڑے یورپی ممالک کے مقابلے میں جرمنی نسبتاﹰ کم عمر ملک ہے۔ تارکین وطن کے حوالے سے اس ملک نے سب سے پہلا بحران پہلی جنگ عظیم کے دوران اور اس کے بعد دیکھا۔
روس میں انقلاب، خانہ جنگی اور روسی باشندوں کا ملک سے فرار
1917-1920
روس میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد قریب ایک اعشاریہ پانچ ملین روسی شہری ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان میں کاروباری اور شاہی خاندان کے افراد، سابق سرکاری حکام اور سیاستدان شامل تھے۔ سن انیس سو بائیس اور تیئس کے دوران کم و بیش چھ لاکھ روسی شہری جرمنی میں آ کر آباد ہوئے جن میں سے نصف سے زائد نے اس وقت کے جرمن دارالحکومت برلن میں سکونت اختیار کی۔ سن انیس سو ستائیس تک تاہم یہ تعداد محض ڈیڑھ لاکھ رہ گئی تھی۔ اس کی وجہ مہاجرین کے لیے انضمام کی سخت پالیسی اور قانونی مدد کا نہ ہونا بتایا جاتا ہے۔
مشرقی یورپ میں یہودیوں پر مظالم اور اُن کا فرار
بیسیویں صدی کے اوائل میں مشرقی یورپ میں یہودیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور مظالم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ان میں سے بیشتر جرمنی آئے جو یہاں سے فرانس یا امریکا منتقل ہونا چاہتے تھے۔ سن انیس سو پچیس تک مشرقی یورپ سے جرمنی آنے والے نوے ہزار یہودی جرمنی میں رہ رہے تھے جو جرمن روزنامے’سائٹ‘ کے مطابق مقامی یہودی آبادی کا پندرہ فیصد تھے۔ نازی حکومت سے پہلے سن انیس سو تینتیس سے قبل تک یہودی مخالف جذبات جرمنی کا مسئلہ نہیں تھا۔
داخلی طور پر بے گھر جرمن شہری
1949-1945
دوسری جنگ عظیم میں بارہ ملین کے لگ بھگ جرمن شہری داخلی طور پر بے گھر ہوئے۔ ان میں سے زیادہ تر ملک کے مشرقی حصوں میں رہتے تھے جن پر روسی فوج نے قبضہ کر لیا تھا۔
جرمن باشندوں کی مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی کی طرف مہاجرت
1989-1949
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے لے کر سن 1989 تک جرمنی دو ریاستوں میں منقسم رہا۔ سن انیس سو انچاس سے انیس سو اکسٹھ تک 2.7 ملین جرمن شہریوں نے مشرقی جرمنی سے مغربی جرمنی کی جانب ہجرت کی۔ سن انیس سو اکسٹھ میں مشرقی جرمنی کی حکومت نے اس منتقلی کو روکنے کے لیے مشہور زمانہ دیوار برلن تعمیر کی تھی۔
کمیونسٹ سوویت حکومت سے مغربی جرمنی کی طرف فرار
مشرقی جرمنی سمیت سوویت ممالک سے نکلنا لوگوں کے لیے انتہائی مشکل کام تھا۔ اسی لیے سن انیس سو اکیانوے میں سوویت حکومت کے خاتمے تک بہت کم افراد مغربی جرمنی فرار ہونے میں کامیاب ہو سکے۔
ویت نام سے جرمنی آنے والے ’بوٹ پیپل‘
سن 1978 کے آخر میں جرمن حکومت نے ویت نام کی جنگ کے بعد وہاں سے کشتیوں پر جرمنی پہنچنے والے ویت نامی باشندوں کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان افراد کے مصائب کا چرچا دنیا بھر میں ہو رہا تھا۔ جرمنی نے ایسے چالیس ہزار افراد کو پناہ دی۔
ترکی اور پولینڈ سے لوگوں کا فوجی بغاوت کے نتیجے میں فرار
سن انیس سو اسّی کے عشرے میں ترکی اور پولینڈ میں فوجی بغاوتیں ہوئیں۔ اس سے پہلے سن انیس سو اناسی میں ایران میں اسلامی انقلاب آ چکا تھا۔ ادھر ترک حکومت اور کردستان ورکرز پارٹی کے مابین تنازعہ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس تناظر میں سن انیس سو اسّی میں پہلی بار پناہ کی درخواستوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔
سن 1990، یوگوسلاویہ میں جنگیں اور شہریوں کی نقل مکانی
نوے کی دہائی میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سابقہ یوگوسلاویہ میں نسلی بنیادوں پر کئی ایک جنگیں ہوئیں جن کے نتیجے میں بلقان ریاستوں سے لاکھوں افراد کو مہاجرت کرنی پڑی۔ سن انیس سو بانوے میں جرمنی کو چار لاکھ اڑتیس ہزار پناہ کی درخواستیں موصول ہوئیں۔