تارکین وطن چند سو ڈالر میں ’غلاموں کی طرح‘ بکتے ہوئے
12 اپریل 2017بین الاقوامی مبصرین نے متاثرہ افراد کے بیانات کے حوالے سے بتایا ہے کہ غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی خواہش لیے افریقی تارکین وطن لیبیا پہنچتے ہیں، تو انہیں وہاں چند سو ڈالر کے عوض غلاموں کی طرح بیچا جاتا ہے اور ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔
متعدد متاثرین کے مطابق انہوں نے ایک بہتر مستقبل کے لیے انسانوں کے اسمگلروں کو پیسے دیے، تاہم انہیں یرغمال بنایا گیا اور ان کے آبائی ممالک میں موجود اہل خانہ سے تاوان کی رقم تک طلب اور حاصل کی جاتی رہی۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت IOM کا کہنا ہے کہ ’’غلاموں کی مارکیٹ جیسی حالت‘‘ اور تارکین وطن کو یرغمال بنا لینے کے واقعات لیبیا میں عام ہو چکے ہیں، جہاں جرائم پیشہ افراد ان تارکین وطن کا بھرپور استحصال کر کے پیسہ کمانے میں مصروف ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے لیبیا میں مشن کے سربراہ عثمان بیلبیسی نے جنیوا میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’لیبیا میں انسانوں کی خرید و فروخت اسمگلروں کے ہاں ایک عمومی رجحان میں تبدیل ہو چکی ہے اور یہ جرائم پیشہ عناصر روز بہ روز مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’انسانوں کی منڈیوں میں تارکین وطن کو دو سو تا پانچ سو امریکی ڈالر فی فرد کے حساب سے اجناس یا چیزوں کی طرح خریدا اور بیچا جا رہا ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کئی تارکین وطن جو اسی انداز سے خریدے اور بیچے گئے، تاہم یرغمال بنانے والوں کے چنگل سے آزاد ہو گئے، انہوں نے ایسے تارکین وطن کو درپیش انتہائی سخت حالات کی تفصیلات بتائی ہیں، جب کہ کئی ایسے بھی ہیں، جو اب تک اس غلامی سے آزاد ہونے میں کامیاب نہیں ہو پائے۔
اس عالمی ادارے نے اس حوالے سے اعداد و شمار جاری نہیں کیے کہ اس کاروبار سے مجموعی طور پر کتنے افراد متاثر ہو چکے ہیں، تاہم یہ معلومات لیبیا میں موجود اس تنظیم کے عملے تک پہنچنے اور انہیں اپنی روداد بتانے والے تارکین وطن کے بیانات کی روشنی میں مرتب کی گئی ہیں۔
متاثرہ افراد کی جانب سے بتایا گیا کہ انہیں یرغمال بنا کر ان سے نہ صرف جبری مشقت کرائی گئی بلکہ ان کے اہل خانہ سے تاوان کی رقم کے مطالبے بھی کیے گئے اور متعدد صورتوں میں یہ رقم وصول بھی کی گئی۔ بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق تارکین وطن خواتین کو مختلف افراد کو بیچا جاتا ہے اور ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔