تاریخی دستاویزات کی بربادی اور کلچر کی تباہی
5 ستمبر 2021کانسی کے دور میں جب ریاست وجود میں آئی تو اس کے ساتھ ہی رسم الخط بھی ایجاد ہوا، تاکہ ریاست کے انتظام اور ٹیکسوں کی وصولی کے نظام کو منظم کیا جائے۔ میسوپوٹامیہ میں تاریخی واقعات قوانین اور جنگوں کی تفصیل کو مٹی کی تختیوں پر خط میخی میں لکھا گیا۔ دوسری تہذیبوں جیسے چین میں جانوروں کی ہڈیوں اور بانس کی بنی تیلیوں سے بنے صفحات پر لکھائی کا کام ہوا۔ اس کے علاوہ بھیڑ کی کھال کو صاف کر کے اس کو بھی لکھائی کے لیے استعمال کیا گیا۔ مصر میں جب ایک درخت کے گودے سے پپائرس بنا لیا گیا تو لکھائی کے لیے یہ استعمال ہونے لگا۔
میسوپوٹامیہ میں اشورینی پال جو اسیریا کا بادشاہ تھا اس کے کتب خانے میں مٹی کی تختیوں پر لکھی تین ہزار کتابیں تھیں۔ ان ہی سے طوفان نوح کے بارے میں علم ہوا۔ جب 1770ء کی دہائی میں ہر کولین اور پومپے کی دریافت ہوئی تو اس کے ایک مقام سے پپائرس کے رولز ملے۔ جن پر یونانی فلسفہ لکھا ہوا تھا اس کے ورق (صفے) وقت کے ساتھ آپس میں چپک گئے تھے۔ لہٰذا ان کو علیحدہ کرنے کے لیے خاص طور سے ایک مشین ایجاد کی گئی، تاکہ ان کی تحریر کو پڑھا جا سکے۔ پائپرس پر لکھے ہوئے مواد کا ایک اور خزانہ مصر میں گیذا کے مقام پر یہودیوں کے بھادت خانے (صومعہ) میں ملا۔ یہ وہ خط و کتابت ہے جو یہودی تاجروں نے تجارت کے سلسلے میں اپنے ہم منصب تاجروں سے کی تھی جو دوسرے ملکوں میں رہتے تھے۔ اسی طرح سے 1940ء کی دہائی میں ایک گڈریئے کو اردن کے علاقے میں ایک غار سے پپائرس کے رولز ملے، یہ اس یہودی فرقے کے مذہبی اعتقادات پر تھے جو یہاں آکر آباد ہو گئے تھے۔ انہوں نے توریت اور بائبل کے بارے میں اپنی تعلیمات کو لکھ کر غاروں میں چھپا دیا تھا، چنانچہ تیرہ غاروں سے پپائرس کے رولز ملے۔ انہیں Dead Sea Scrolls کہا جاتا ہے۔ اب ماہرین انہیں پڑھ کر ان کے متن کو شائع کر رہے ہیں۔ دوسری ریاستوں کی طرح ہندوستان میں بھی سلاطین دہلی اور مغل حکمرانوں نے ریاست کے قوانین اور ضوابط احکامات اور فرامین عہدنامے اور دوسرے ملکوں کے حکمرانوں سے خط و کتابت کو محفوظ رکھا تھا، لیکن ہندوستان کی سیاست میں جو تبدیلیاں آئی، خانہ جنگی کے واقعات ہوئے اور بیرونی حملہ آور آئے تو انہوں نے ان دستاویزات کو تباہ و برباد کیا، لیکن پھر بھی عہد مغلیہ کی تاریخی دستاویزات بڑی تعداد میں اب بھی محفوظ ہے۔ جن سے مورخ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
جب ہندوستان میں انگریزی حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس نے ریاست کے انتظامات کو بہتر بنانے کے لیے ہر ادارے کے لیے یہ لازمی قرار دیا کہ وہ اپنے طور پر متعلقہ معلومات کو اکٹھا کرے۔ ان اداروں میں خاص طور سے سراغ رساں ایجنسیوں کی اہمیت تھی ان کے مخبر مزاحمتی تحریکوں اور حکومت مخالف لوگوں کے پورے پورے ریکارڈ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں ہندوستان چھوڑ کر جانا پڑا تو ان کے عہد کی تاریخی دستاویزات کی بڑی تعداد جمع ہو گئی تھی۔ اس موقع پر انہیں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ آزاد ہندوستان اور پاکستان کو کون سی نئی دستاویزات دینا چاہیں، کن کو ساتھ لے جانا چاہیے اور کن دستاویزات کو ضائع کر دینا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے خاص طور سے جاتے وقت ہندوستان کے والیان ریاست کے اس ریکارڈ کو جلا دیا۔ جس میں ان کی بدعنوانیوں کا ریکارڈ تھا۔ شاید یہ والیان ریاست کی انگریزوں سے وفاداری تھی جس کی قیمت انگریزی حکومت نے ان کا ریکارڈ ضائع کرکے دی، اگرچہ اس صورت میں ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم باب ضائع ہو گیا۔
بقیہ دستاویزات کو لندن لے جایا گیا، جہاں ماہرین نے تمام دستاویزات کا معائنہ کرکے بعد میں فیصلہ کیا کہ وہ کون سی دستاویزات ہیں۔ جنہیں واپس کر دیا جائے اور کن کو ضائع کیا جائے اور بقیہ کو لندن ہی میں محفوظ رکھا جائے۔
"Richard Ovenden" نے اپنی کتاب "Burning the books" انگلستان، فرانس اور ہالینڈ کی ان پالیسیوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنی کالونیز میں اپنے عہد کی دستاویزات کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا تھا ان ملکوں نے جو ان کے اقتدار کے زمانے میں نوآبادیات کے لوگوں پر مظالم کیے تھے، اذیتیں دی تھیں، لوگوں کو پھانسیاں دی تھیں اور انہیں موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اب ان کو اپنی بدنامی کو ختم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ کوئی بھی ثبوت باقی نہ رہے۔ انگلستان نے کینیا میں ماؤ ماؤ تحریک کی مزاحمت پر ہزاروں کو پھانسی دی اور ہزاروں کو قید و بند میں رکھا، لیکن کینیا کی آزادی سے پہلے اس پورے ریکارڈ کو جلا دیا۔ روڈیشیا جو اب زمبابوے ہے۔ وہاں کا سارا ریکارڈ پہلے جنوبی افریقہ لایا گیا اور پھر اسے لندن لے جایا گیا۔ ملائیشیا کو آزاد کرتے وقت دستاویزات کو بھر کر سنگاپور لایا گیا جو اس وقت برطانیہ کی کالونی تھا۔ اسی طریقہ کار کو برطانیہ نے دوسری کالونیز میں بھی اختیار کیا۔
ہالینڈ جس نے انڈونیشیا کو اپنی کالونی بنایا ہوا تھا۔ اس نے بھی وہاں سے اپنے عہد کی تمام دستاویزات کو اکٹھا کیا اور اسے ہالینڈ لے آئے۔ دستاویزات کو ضائع کرنے میں فرانس کا بڑا کردار ہے۔ خاص طور سے الجزائر میں جسے اس نے فرانس کا ایک حصہ بنایا تھا۔ جب وہاں آزادی کی تحریک اٹھی تو فرانسیسی پولیس اور نوآبادکاروں نے الجزائر کے باشندوں پر طرح طرح کے مظالم کیے اور اذیتیں دیں۔ جب الجزائر کی آزادی کا وقت قریب آیا تو فرانسیسی حکام نے اپنے مظالم اور جبر کی تمام دستاویزات کو ڈبوں میں جمع کرکے انہیں سمندر میں غرق کر دیا اور پھر نو آبادکاروں نے الجزائر یونیورسٹی کو آگ لگا دی۔ جس کی وجہ سے نہ صرف ریکارڈ جل گیا، بلکہ بہت بڑا حصہ کتابوں کا بھی جل گیا۔ تاریخی دستاویزات جلانے کا یہ سلسلہ موجودہ دور میں بھی جاری رہا۔
بوسینیا میں سربوں نے مسلمانوں کی شناخت ختم کرنے کے لیے بوسنیا کے کتب خانوں اور تاریخی ریکارڈ کو جلا کر تباہ کر دیا۔ 1982ء میں اسرائیل نے خاص طور سے بیروت میں فلسطین کے تحقیقی ادارے پر گولہ باری کرکے اسے ریکارڈ سمیت تباہ کر دیا، جب امریکا نے عراق پر حملہ کرکے صدام کی حکومت کو ختم کر دیا تو ایک تو اس حملے کے نتیجے میں بغداد میں قائم شدہ کتب خانہ اور دستاویز کا مرکز بمباری سے تباہ ہوا، دوسرے امریکا کو بغداد میں بعث پارٹی کی دستاویزات ملیں جنہیں وہ امریکا لے گئے اسی طرح سے کردوں پر جو مظالم کیے گئے تھے ان کی دستاویزات بھی امریکا پہنچ گئیں جہاں ان تمام فائلوں کو چیکنگ کے بعد Digitalized کر لیا گیا ہے۔
پاکستان میں اس وقت ہر صوبے کے پاس اس کے اپنے دستاویزات ہیں، لیکن بدقسمتی سے ان کا Catalogue نہ ہونے کی وجہ سے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں National Archive کے علاوہ "National Documentation Center" بھی ہے، لیکن دفتری کارروائیوں کی وجہ سے ریسرچ کرنے والے ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔ اب تک ان دستاویزات مراکز کے پاس برطانوی عہد اور پاکستان بننے کے بعد کا پورا ریکارڈ بھی نہیں ہے۔ جس میں عدلیہ، ایونیو، سراغ رساں ایجنسیوں کا ریکارڈ، جیل کا ریکارڈ، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفاتر کی فائلیں۔ یہ مواد اب تک ان دستاویزات میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے تاریخی تحقیق بھی نہ مکمل ہے۔
جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک سامراج سے آزاد ہوئے تو انہوں نے اپنی تاریخ کی تشکیل نو کی۔ کالونیل عہد کا چونکہ پورا ریکارڈ ان کے پاس نہیں تھا۔ اس لیے جو ضائع ہوا اس نے تاریخی واقعات کو گمنامی میں ڈال دیا، لیکن دوسرے دستاویزات کی ایک بڑی تعداد سامراجی ملکوں میں ہے اور وہاں جاکر ان کا مطالعہ کرنا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے نوآبادیاتی تاریخ پر سامراجی ملکوں کا قبضہ ہے۔ اس لیے ان ملکوں کے مورخ ان دستاویزات سے پورا فائدہ اٹھاتے ہیں اور سامراج کے جرائم کو چھپاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی 1947ء سے لے کر اب تک کی دستاویزات کو بھی محفوظ نہیں رکھا گیا ہے۔ آمریتوں کے دور حکومت میں اور سیاسی جماعتوں کے دور اقتدار میں بھی اہم افراد کی خفیہ ذرائع سے فائلیں تیار کرائی جاتی تھیں، تاکہ ان کو بلیک میل کیا جا سکے۔ ان فائلوں کو تاریخی دستاویزات کا حصہ ہونا چاہیے اور جب 30 سال یا 50 سال کی مدت کے بعد ان دستاویزات کو پبلک کے لیے کھولا جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ ان کو ضائع نہ کیا جائے۔