1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تبتیوں کی چین کے خلاف بغاوت کے ساٹھ سال

10 مارچ 2019

دس مارچ 1959ء کو تبت میں بغاوت شروع ہوتے ہی تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے بھارت فرار ہو کر ایک ’جلا وطن حکومت قائم‘ کر لی تھی، تاکہ آزادی کے لیے پر امن جدوجہد کی جا سکے۔ چین کی نظر میں وہ ’علیحدگی  پسند باغی‘ ہیں۔

https://p.dw.com/p/3EjYd
Tibet - Zwei Nonnen fordern Freilassung des 31-jährigen Tashi Wangchuk
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Bhatia

تبت میں چینی حکمرانی کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے مگر بیجنگ حکومت اب بھی اپنی حکمت عملی کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کرتی  ہے کہ جو لوگ ان کی پالیسی پر سوال اٹھاتے ہیں وہ متعصب ہیں۔ تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو جلا وطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ساٹھ سال ہو گئے ہیں۔

تبت میں بغاوت کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر چینی خبررساں ادارے ’شنہوا‘ نے اپنے ایک اداریے میں لکھا کہ خطے میں ہونے والی اقتصادی ترقی، شہریوں کی اوسط عمر میں اضافہ اور بہتر تعلیمی سہولیات ناقدین کے سوالوں کا جواب ہیں۔

Templeton Preis 2012 - Dalai Lama
تصویر: Imago/ZUMA Press/K. Price

شنہوا نے اپنے اس اداریے میں بغاوت کے آغاز کا براہ راست ذکر نہیں کیا بلکہ 1959ء کو پیش آنے والے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں ’جمہوری اصلاحات‘ کی ابتدا قرار دیا۔ اور ان واقعات کو بدھ راج اور سامراجی ڈھانچے کا خاتمے سے تشبیہ دی۔

تبت چین کے زیر انتظام ہے اور یہاں پر سلامتی کے اداروں کے اہلکار تعینات ہیں۔ دیگر ممالک میں رہنے والے تبتیوں کا کہنا ہے کہ چین اپنے مفاد کی خاطر ہمالیہ کے خطے میں موجود وسائل کا استحصال کر رہا ہے جبکہ تبت کی زبان اور منفرد بودھ ثقافت کو رفتہ رفتہ تباہ کیا جا چکا ہے۔

دوسری جانب چین کا دعوی ہے کہ یہ علاقہ صدیوں سے اس کا حصہ رہا ہے جبکہ بہت سے تبتیوں کا کہنا ہے کہ وہ بنیادی طور پر زیادہ تر وقت آزاد ہی رہے ہیں۔ کمیونسٹ دستوں نے 1950ء میں ایک مختصر سی فوجی کارروائی کے بعد اس خطے کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔

Buddha Detailaufnahme  Buddha Shakyamuni Tibet
تصویر: Museum Rietberg/ R. Wolfsberger

خبر رساں اداروں کے مطابق تبت کے موجودہ حالات کے بارے آزادانہ طور پر معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ غیر ملکی سیاح ایک خصوصی اجازت نامے کے بعد ہی تبت جا سکتے ہیں۔ اسی طرح غیر ملکی صحافیوں کو بھی شاذ و نادر ہی وہاں تک رسائی دی جاتی اور تبتیوں کے تہواروں کے موقع پر تو غیر ملکیوں کے وہاں جانے پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔

تبیتوں کے بین الاقوامی نیٹ ورک کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو اس موقع پر ایک خط ارسال کیا گیا ہے، جس کے مطابق، ’’چین نے اپنے طویل دور حکمرانی کے دوران شہریوں کے انسانی اور سیاسی حقوق کی پامالی کی ہے۔ اب بین الاقوامی برادری کی جانب سے جرات مندانہ رد عمل ظاہر کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘