تبت کی آزادی کے حق میں خود سوزیاں
5 مارچ 2012امریکہ میں قائم ریڈیو فری ایشیا نے پیر کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس نامعلوم لڑکی نے، جس کا تعلق گان سُو صوبے کے شہر ماچُو کے تبتی مڈل اسکول سے تھا، ہفتے کے روز ایک بازار میں خود کو آگ لگا لی۔ ریڈیو نے ماچُو میں روابط رکھنے والے ایک جلا وطن تبتی کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہان چینی تاجروں نے پولیس بلا لی تھی، جس نے آ کر اس لڑکی کی لاش اپنی تحویل میں لے لی۔ اس مڈل اسکول کے طلبہ اس سے پہلے بھی تبتی شہریوں پر حکومت کے کنٹرول کے خلاف احتجاج کر چکے ہیں اور پولیس متعدد طلبہ کو حراست میں بھی لے چکی ہے۔
لندن میں قائم فری تبت تحریک کے مطابق اتوار کو ہمسایہ صوبے سچوآن کے نگابا نامی شہر میں ایک 32 سالہ تبتی خاتون خود کو آگ لگانے کے نتیجے میں جل کر ہلاک ہو گئی۔ ایک پولیس اسٹیشن کے قریب خود کو آگ لگانے والی چار بچوں کی ماں اس خاتون کا نام رنچن بتایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ بیوہ خاتون تبت کی آزادی اور جلا وطن تبتی رہنما دلائی لامہ کی واپسی کے حق میں نعرے لگا رہی تھی۔ بدھ بھکشو اور تبتی شہری اس خاتون کی لاش کو اُس خانقاہ کے اندر لے گئے، جس کے مرکزی دروازے کے سامنے اُس نے خود سوزی کی تھی۔
پے در پے احتجاج اور خود سوزی کے متعدد واقعات کی بناء پر اس سال چینی حکومت نے تبت کے کئی علاقوں میں سکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کر دیے ہیں۔ رِنچن کی موت پر اپنے ایک بیان میں فری تبت تحریک کی ڈائریکٹر اسٹیفانی بریجن نے کہا کہ ’تبتی در حقیقت ایک مارشل لاء کے تحت زندگی گزار رہے ہیں‘۔
2008ء میں بڑے پیمانے پر ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے بعد سے بیجنگ حکومت نے تبتی علاقوں پر اپنی گرفت مزید مضبوط کر دی ہے، صحافیوں کو وہاں نہیں جانے دیا جاتا، غیر ملکی سیاحوں کی آمد محدود کر دی گئی ہے اور کچھ جگہوں پر مواصلاتی رابطے منقطع کر دیے گئے ہیں۔
رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے
ادارت: حماد کیانی