’تجارتی جنگ‘ : چين ميں امريکی تربيت يافتہ ماہرين کی تعيناتی
19 مارچ 2018يی گانگ کو ’پيپلز بينک آف چائنا‘ کا سربراہ پير انيس مارچ کو مقرر کيا گيا۔ انہوں نے اقتصاديات ميں پی ايچ ڈی امريکا کی يونيورسٹی آف الينوائے سے حاصل کی جب کہ اس سے قبل وہ ہارورڈ يونيورسٹی کے کينيڈی اسکول آف گورنمنٹ سے ماسٹرز مکمل کر چکے تھے۔ چين کے مرکزی بينک ميں ان کی ممکنہ ذمہ داريوں ميں انٹريسٹ ريٹس اور ايکسچينج ريٹس کو عالمی منڈی کے حساب سے ترتيب دينا شامل ہو گا۔ اس کے علاوہ انہيں معاشی معاملات کی نگرانی کے عمل کو بھی زيادہ موثر بنانا ہو گا۔ ساٹھ سالہ يی گانگ بيرونی سرمايہ کاروں اور ريگوليٹرز ميں پہلے ہی جانے پہچانے ہيں۔ وہ چينی کرنسی يوآن کو زيادہ پائیدار بنانے کے ليے جاری کوششوں کو پہلے ہی ديکھ رہے تھے۔
در اصل چين کی برسر اقتدار کميونسٹ پارٹی پر بڑھتے ہوئے قرضوں، اقتصادی معاملات ميں امريکا اور يورپ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشيدگی اور رياست کے زير کنٹرول معيشت ميں بہتری کے ليے کافی دباؤ ہے۔ بيجنگ حکومت نے مقابلے کی فضا بہتر بنانے کے ليے نجی اور بين الاقوامی کمپينوں کے ليے نئی صنعتيں لگانے کا عنديہ ديا ہے تاہم کاروباری گروپس اور اصلاحات کے حامی افراد کا کہنا ہے کہ اس سلسلے ميں اقدامات کی رفتار سست ہے۔
چين کے ’ميزوہو بينک‘ نے اپنی ايک رپورٹ ميں لکھا ہے کہ يی کو بين الاقوامی سطح پر کافی عزت کے ساتھ ديکھا جاتا ہے اور وہ اصلاحات پسند ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ چين ميں مرکزی بينک کے گورنر کے اختيارات ديگر ملکوں کے مرکزی بينکوں کے سربراہان کی نسبت محدود ہيں۔ مثال کے طور پر چينی سينٹرل بينک مالياتی پاليسی نہيں بناتا بلکہ اس کا کام اس پاليسی پر عملدرآمد کو يقينی بنانا ہوتا ہے جو کہ ايک خفيہ کميٹی بناتی ہے۔
ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں