تحریک طالبان کے نائب سربراہ ’’ولی الرحمان کی تدفین‘‘
30 مئی 2013ابھی تک ولی الرحمان کی موت کی تصدیق وائٹ ہاؤس اور تحریک طالبان کے ترجمان نے نہیں کی لیکن اگر یہ سچ ہے تو یہ عسکریت پسند گروپ، جن کے بم حملوں سے ہزاروں افراد مارے جاتے ہیں کے لئے یہ ایک بہت بڑا دھچکا ہو گا۔
بدھ کے روز ڈرون حملے میں مارے جانے والے رحمان کا قتل پاکستان کی حکمران جماعتوں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ بھی حائل کر سکتا ہے، کیونکہ امن مذاکرات کے لئے ولی الرحمان کو ان سے بڑے لیڈر حکیم اللہ محسود سےزیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔
پاکستانی انٹیلی جنس حکام کے مطابق رحمان اوران کے چار ساتھیوں کو بدھ کی صبح ڈرون میزائل حملے میں ہلاک کیا گیا اور یہ حملے شمالی وزیرستان کے ایک اہم ٹاؤن میران شاہ میں ان کے گھر پر کئے گئے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے بدھ کے روز رحمان کی موت کی تصدیق کر نے سے انکار کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ بات سچ ہے تو عسکریت پسند گروپ اپنے چیف فوجی اہلکار سے محروم ہو جائیں گے، اور یہ شخص اس حملے میں بھی ملوث تھا جس میں افغانستان میں موجود سات سی آئی اے کے ملازمین کو ہلاک کیا گیا تھا۔
2010ء میں واشنگٹن انتظامیہ نے رحمان سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے 5 ملین ڈالر کی پیشکش کی تھی۔ امریکی ڈرون حملے پاکستان میں انتہائی غیر مقبول ہیں، اور 2010 ء کے بعد سے ان حملوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
پاکستان کے نامزد وزیر اعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے ڈرون حملوں کے خلاف ہیں اورپاکستانی طالبان سے امن مذاکرات کے خواہشمند ہیں۔ لیکن رحمان کی موت امن مذاکرات سے متعلق مسائل کے حل میں مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے۔
اسلام آباد میں قائم فاٹا ریسرچ سینٹر کی انتظامیہ کے ڈائریکٹر منصور محسود کے مطابق 43 سالہ رحمان بہت ہی ٹھنڈے مزاج کا ذہین انسان تھا اور تحمل سے حکومت سے مذاکرات کر سکتا تھا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اس ڈرون حملے کی مذمت کی ہے لیکن اس میں رحمان کی موت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
hm/km (AP)