ترقی پذیر ملکوں میں کینسرکی سستی دوا کی فروخت کا پلان
23 اگست 2010ترقی پذیر ملکوں میں ترقی یافتہ ملکوں کی طرح سوشل سکیورٹی کا منظم پروگرام سرے سے موجود ہی نہیں ہوتا ہے۔ اس باعث کئی امراض میں مبتلا افراد بسا اوقات ادویات کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آیاد ہے کہ ترقی پذیر معاشروں میں کینسر کے مریض اپنے لئے بہترین علاج درد زائل کرنے والی گولیوں کو ہی سمجھتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک سرطان کے لئے بعض ادویات انتہائی مہنگی ہیں اور وہ غریب افراد کی دسترس سے باہر ہیں۔ اس باعث ان افراد کے لئے آسان علاج درد زائل کرنے والی ادویات ہوتی ہیں۔
امریکن کینسر سوسائٹی کے چیف ایکزیگٹو افیسر جان سیفرن کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ معاشرے کے لئے یہ باعث شرم ہے کہ ایک دوسرے معاشرے میں انسان ادویات کو ترستے ہیں اور صرف درد کنٹرول کرنے والی گولیاں ان کا سہارا ہیں۔ جان سیفرن ان خیالات کا اظہار چین کے شہر ’’شینژین‘‘ میں عالمی کینسر کانگریس کے موقع پر کیا۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری شدہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً پانچ ارب لوگ ایسے ہیں، جن کی ادویات تک رسائی محدود ہے۔ ان میں بعض غریب ملکوں کے افراد دوا حاصل کرنے کے لئے مطلوبہ معمولی رقم بھی نہیں رکھتے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ انسداد سرطان کی دوائیں یقینی طور پر خاصی مہنگی ہیں اور بے شمار ملکوں کی غریب عوام ان تک رسائی حاصل کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔
عالمی شہرت کے امریکی سائیکل سوار لانس آرمسٹرانگ کی قائم کردہ کینسر سے آگہی سے متعلق بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’’لیو سٹرانگ‘‘ (Livestrong) کے صدر ڈاگ المان کا عالمی کینسر کانگریس میں کہنا ہے کہ بہت جلدکینسر کے ماہرین پانچ مختلف ملکوں میں سرطانی امراض کے لئے دوا ساز اداروں سے ادویات کو خرید کر انہیں سستے داموں فراہم کریں گی۔ اس کار خیر میں ان کی تنظیم بھی شامل ہے۔ جن ملکوں میں پراجیکٹ شروع کرنے کا پلان ہے ان میں بھارت، روانڈا، ہیٹی، ملاوی اور اردن شامل ہیں۔ امریکی سائیکل سوار لانس آرمسٹرانگ نے اپنی ہمت اور دواؤں سے اپنے بدن میں پیدا شدہ کینسر کو شکست دے رکھی ہے۔
سن 2008 میں سرطان سے مرنے والوں کی تعداد 76 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ اگرکینسرکا شافی علاج دستیاب نہ ہو سکا تو ایسے خدشات ہیں کہ سن 2020 تک ترقی پذیر ملکوں کی ساٹھ فیصد آبادی کینسر مرض کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عدنان اسحاق