ترک۔آرمینا تعلقات کی بحالی، ایک سوالیہ نشان
11 اکتوبر 2009ترکی اور آرمینیا کے درمیان باہمی تعلقات کی بحالی کا تاریخی معاہدہ ایک دن بعد ہی سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ آذربائیجان نے اس معاہدے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ آذربائیجان ترکی کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔ تاہم اس نے آرمینیا کے ساتھ انقرہ حکومت کے اس معاہدےے کو خطے میں امن اور استحکا م کے لئے خطرہ قراردیا ہے۔
آذربائیجان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مقبوضہ خطے سے آرمینیائی افواج کی واپسی کے بغیر یہ معاہدہ آذربائیجان اور ترکی کے دیرینہ تعلقات کے بالکل منافی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ترک۔آرمینیا سرحد کھولنے کے یک طرفہ اعلان سے خطے کے امن پر براہ راست سوالات اٹھ رہے ہیں
دوسری جانب آج اتوار کو ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے بھی ایک بیان میں کہا کہ جب تک آرمینیا، آذربائیجان کے نگورنو کاراباخ کے خطے پر قابض ہے، اس وقت تک حالیہ معاہدے پر مکمل عملدرآمد ممکن نہیں۔
واضح رہے کہ ترکی نے نگورنو کاراباخ کے تنازعے پر سن 1993ء میں آرمینیا کے ساتھ ملنے والی اپنی سرحد بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تبھی سے سفارتی تعلُقات بھی منقطع چلے آ رہے ہیں۔
اردگان کا کہنا تھا کہ وہ دستخط شدہ معاہدے کوترک پارلیمان میں پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آذربائیجان اور آرمینیا معاملے کو حل کرنے کی جانب بڑھے اور عوامی رائے ہموار کریں تو پارلیمان کو حالیہ معاہدے کی توثیق میں آسانی ہوجائے گی۔
ترکی اور آرمینیا نے گزشتہ روز ہفتہ کو سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورخ میں ایک اعلیٰ سطحی تقریب میں باہمی سفارتی تعلقات کی بحالی کے لئےانتہائی اہم نوعیت کے ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ دونوں ملک اِس بات پر متفق ہوئے کہ وہ ایک دوسرے کے دارالحکومتوں یعنی انقرہ اوریریوان میں سفارت خانے قائم کرنے کے ساتھ ساتھ سرحدیں بھی کھولیں گے۔
اِس کے علاوہ سن اُنیس سو پندرہ میں پہلی عالمی جنگ کے دوران آرمینیائی باشندوں کے قتلِ عام کی تحقیق کے لئے دونوں ملکوں کے تاریخ دانوں پر مشتمل کمیشن بھی قائم کیا جائے گا۔ آرمینیا کا خیال ہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد پندرہ لاکھ آرمینیائی باشندوں کا قتلِ عام ہوا تھا جبکہ ترکی اتنی بڑی تعداد کو غلط قرار دیتا ہے۔ ترک محققین کے خیال میں ہلاک ہونے والے آرمینیائی باشندوں کے تعداد دو لاکھ کے قریب ہے۔
رپورٹ شادی خان سیف
ادارت ندیم گل