ترکی آذربائیجان کے علاقوں سے آرمینیائی فوج کا انخلا چاہتا ہے
13 اکتوبر 2020نگورنو کاراباخ کے علاقے میں بے اثر ہوتی جنگ بندی کے ماحول میں ترکی نے ایک بار پھر سے اپنے اتحادی آذربائیجان کی اپنی سر زمین واپس لینے کی مہم کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ترکی کے وزیر دفاع حلوصی آکار نے اس مسئلے پر پیر کے روز اپنے روسی ہم منصب سرگئی شوگیؤ سے فون پر بات چیت کی اور اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے۔
ترکی کے وزیر دفاع نے ماسکو پر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ آرمینیائی فوج کا مقبوضہ علاقوں سے فوری طور پر انخلاء اور اس کے حملوں کا روکا جانا بہت ضروری ہے۔ عالمی سطح پر یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نگورنو کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کا ہے تاہم اس علاقے پر آرمینیائی باشندے رہتے ہیں اور آرمینیا کی حمایت یافتہ حکومت کا اس پر کنٹرول ہے۔
اس متنازعہ علاقے کے حوالے سے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان ہونے والی لڑائی میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور اگر اس میں شدت آئی تو مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔ نگورنو کاراباخ کے علیحدگی پسندوں کو آرمینیا کی حمایت حاصل ہے جبکہ آذربائیجان کا پرانا موقف ہے کہ یہ خطہ اس کا حصہ تھا اور رہے گا۔اس تنازعے میں آذربائیجان کو ترکی کی حمایت حاصل ہے جبکہ آرمینیا کا روس کے ساتھ فوجی معاہدہ ہے۔
سابقہ سویت یونین کی دونوں ریاستوں کے درمیان صلح کی غرض سے ماسکو میں گزشتہ ہفتے روسی وزیر خارجہ کی ثالثی میں بات چیت بھی ہوئی تھی۔ تقریبا دس گھنٹوں کی بات چیت کے بعد فریقین نے عارضی طور پر جنگ بندی پر اتفاق کر لیا تھا لیکن اس کے بعد سے آرمینیا اور آذربائیجان دونوں ایک دوسرے پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے پر حملے کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
ترکی کا کوئی کردار نہیں
ماسکو کی بات چیت میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ اس مسئلے کے دیر پا حل کے لیے منسک گروپ کے تحت بلا تاخیر بات چیت شروع کردینی چاہیے۔ منسک گروپ کے تحت آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورنو کاراباخ تنازعے کا ایک دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے فرانس، روس اور امریکا کی قیادت میں تقریبا تین عشرے قبل مذاکراتی عمل شروع کیا گیا تھا۔
منسک گروپ میں ترکی سمیت بعض مقامی طاقتوں کو بھی بعد میں شامل کیا گیا تھا جو سن 1992 میں قائم ہوئی تھی تاہم اب تک اس تنازعے کا حل نکالنے میں یہ گروپ ناکام رہا ہے۔ اس سلسلے میں روس میں گزشتہ سنیچر کو جو معاہدہ ہوا تھا اس میں آذربائیجان نے ترکی کے کردار کو امن بات چیت میں زیادہ اہمیت دیے جانے کی تجویز پیش کرتے ہوئے اس کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ لیکن اس بارے میں جب روسی وزیر خارجہ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے بات چیت کا جو فارمیٹ ہے اس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں جو مشترکہ بیان جاری کیا گیا ہے اس میں بھی اسی بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ مذاکرات کے طریقہ کار میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انقرہ نے بھی ماسکو معاہدے کی یہ کہہ کر حمایت کی تھی کہ امن کی جانب یہ پہلا قدم ہے۔ تاہم ترکی نے متنبہ کیا کہ اس سے دیرپا امن حاصل نہیں ہوگا۔
پیر کے روز ترکی کے وزیر خارجہ نے جب اپنے روسی ہم منصب سے بات چیت کی تو ایک بار پھر کہا کہ اب آذربائیجان اس مسئلے کے حل کے لیے آئندہ تیس برس تک مزید انتظار نہیں کریگا۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، انٹرفیکس، اے ایف پی)