ترکی، آٹھ ترقی پذیر اسلامک ممالک کی تنظیم کا سربراہ
20 اکتوبر 2017ڈی ایٹ تنظیم میں ترکی، ایران، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔ آج جمعہ 20 اکتوبر کو ہونے والے اجلاس میں ترک صدر رجب طیب ایردوان نے پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے تنظیم کی صدارت سنبھالی۔ پاکستان دو ہزار بارہ سے ڈی-ایٹ ممالک کی سربراہی کر رہا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی-ایٹ ممالک اب اقتصادی تعاون کے ان منصوبوں پر عملدرآمد کے مرحلے میں داخل ہوں جن پر اب تک ہونے والے اجلاسوں میں اتفاق رائے کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ ڈی-ایٹ کا فورم ایک مؤثر بین الاقوامی آواز بنے۔ تاہم شاہد خاقان عباسی نے تنظیم کے اب تک ہونے والے اجلاسوں کی کارکردگی سے متعلق کہا، ’’ابھی تک کی پیش رفت ہماری امیدوں سے کم ہے اور اس امر کی متقاضی ہے کہ مضبوط شراکت داری کے لیے اقدامات میں تیزی لائی جائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر اس صورتحال کو بہتر نہ کیا گیا تو تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سن دوہزار اٹھارہ تک پانچ سو ارب ڈالر کی تجارت کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
ڈی-ایٹ کی بنیاد ترکی کے سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی کوششوں سے سن انیس سو ستانوے میں رکھی گئی تھی۔ اس تنظیم کا مقصد ترقی پذیر اسلامی ممالک کے درمیان زراعت،صنعت، تجارت، مواصلات اور سیاحت کے علاوہ دیگر شعبوں میں قریبی تعاون کے ذریعے ان ممالک کی مجموعی معیشت میں بہتری لانا تھا۔ ان ممالک میں سے ترکی اور انڈونیشیا کا شمار دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔ ترکی کے سرکاری خبر رساں ادارے ’’انادولو‘‘ کے مطابق ڈی-ایٹ کے رکن ممالک کی مجموعی خام پیداور یا جی ڈی پی کا حجم تین اعشاریہ سات کھرب امریکی ڈالرز ہے۔ ان ممالک کی مجموی آبادی ایک ارب سے زائد ہے جو دنیا کی کل آبادی کا پندرہ فیصد بنتا ہے۔
ڈی-ایٹ کو اقوام متحدہ میں مبصر کا درجہ بھی حاصل ہے جس کی مدد سے وہ عالمی ادارے سے منسلک مختلف اقتصادی اور امدادی اداروں کے ساتھ شراکت کے ذریعے اپنے کردار کو بین الاقوامی سطح پر وسعت دینےکی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔
ترکی میں پاکستان کے سفیر سائرس سجاد قاضی کے مطابق موجودہ بین الاقوامی حالات کے تناظرمیں ڈی ایٹ کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تنظیم کے اقتصادی ایجنڈے پرعملدرآمد کے لیے ایک دس سالہ روڈ میپ تشکیل دیا جائے گا: ’’اس سلسے میں تاجروں کے لیے ویزہ کا حصول سہل بنانے اور کسٹم کے معاملات میں باہمی تعاون بڑھانے کے لیے مشترکہ معاہدوں کی دستاویزات پر دستخط کیے جا چکے ہیں۔‘‘
ڈی ایٹ کے اجلاس میں شریک ایک پاکستانی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اجلاس میں رکن ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کے علاوہ ان ممالک کو شامل مختلف چیلنجوں کے بارے میں بھی بات کی جائے گی۔ اس حوالے سے مشرق وسطٰی کی صورتحال خصوصاﹰ ترکی جانب سے ستائیس لاکھ شامی مہاجرین کی میزبانی اور روہنگیا مسلمانوں کی صورتحال اور اس سلسلے میں بنگلہ دیش کو بطور میزبان ملک درپیش چیلنج پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔