ترکی اور یونان کا درمیانی سمندر، ایک خطرناک گزرگاہ
3 مارچ 2016ترکی کا مغربی ساحلی علاقہ ترکی اور یورپ کی جانب سے تمام تر کوششوں کے باوجود انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والوں کی ایک بڑی آماج گاہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اب تک تمام تر اقدامات کے باوجود مہاجرین اسی علاقے کو خستہ حال کشتیوں کے ذریعے یورپ جانے کے لیے استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ شامی میں گزشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی، جو اب تک ڈھائی لاکھ سے زائد انسانوں کی جان لے چکی ہے، ان مہاجرین کی اس کوشش کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اس علاقے میں موجود ایک اسمگلر ابو منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ وہ آٹھ یا نو سو ڈالر کے عوض مہاجرین کو یورپ تک لے جانے میں مصروف ہے۔ اس سفر میں پانچ برس سے کم کی عمر کے بچے مفت ہوتے ہیں، جب کہ شامی جنگ کے زخمیوں کو بھی رعایتی پیسوں میں یورپ کے لیے ان کشتیوں میں سوار کیا جاتا ہے۔
ابو منیر کے مطابق، ’یہ جنگ اگلے دس برس تک جاری رہے گی۔‘
ابو منیر کا تعلق شامی علاقے دیرالزور سے ہے اور یہ علاقہ اب دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے قبضے میں جا چکا ہے۔ منیر کا کہنا ہے کہ وہ شاید کبھی اپنے علاقے میں واپس نہیں جا سکے گا۔
منیر کے مطابق اس سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ پولیس نے بلکہ موسم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ خراب موسم میں بڑی سمندری لہریں مہاجرین کے ساتھ ساتھ اسمگلروں کے لیے بھی ایک بڑی مشکل میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور ان اسمگلروں کی کوشش ہوتی ہے کہ موسم گرما کے نسبتا پرسکون سمندری دنوں میں یہ خوف ناک سفر اختیار کیا جائے۔
ڈی پی اے کے مطابق ترکی کے مغربی ساحلی علاقے میں متعدد مقامات پر خالی زمین پر قبرستان بن چکے ہیں، جن میں درجنوں قبریں نظر آتی ہیں، مگر کسی مرنے والے کا نام موجود نہیں۔ ان بے نشان قبروں کی وجہ بحیرہء ایجیئن کو عبور کرنے کی ناکام کوشش ہے، جس کا دوسرا نام موت ہے۔
نومبر میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ایک ڈیل طے پائی تھی، جس کے مطابق ترکی سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے ساحلوں سے مہاجرین کی یونان آمد کا سلسلہ روکے، جب کہ اپنے ہاں شامی مہاجرین کی حال کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اس مقصد کے لیے دیگر مراعات کے ساتھ ساتھ ترکی کے لیے تین ارب ڈالر امداد کا اعلان بھی کیا گیا تھا، تاہم اس معاہدے کے باوجود بھی ترکی سے یورپ پہنچنے والوں کے بہاؤ میں کوئی خاص کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔