ترکی میں بڑھتا تشدد، امریکی قونصل خانے پر بھی حملہ
10 اگست 2015ترکی کی جہان خبر ایجنسی کے مطابق استنبول کے ضلعے سرائے میں امریکی قونصل خانے کی عمارت پر حملہ ایک مرد اور ایک خاتون نے کیا تاہم نیوز ایجنسی رائٹرز نے فوری طور پر اس واقع کی تصدیق نہیں کی۔ سی این این ترکی نے کہا ہے کہ امریکی قونصل خانے پر ہوئے حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ ترکی میں گزشتہ ماہ سے انقرہ حکومت کی طرف سے کُرد عسکریت پسندوں کے خلاف شروع کردہ کریک ڈاؤن کے بعد سے ترکی میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ ترک حکومت کرد عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائی کو ’’معاصرانہ جنگ‘‘ قرار دیتی ہے۔ ترکی نے گزشتہ ماہ شام میں برسر پیکار کُرد عسکریت پسندوں اور عراق کے کُرد جنگجوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کا جو سلسلہ شروع کیا اُس میں فضائی حملے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ترک سکیورٹی فورسز نے ملک کے اندر سینکڑوں مشتبہ کُرد باغیوں کو گرفتار بھی کیا ہے۔
استنبول میں پیر کے روز امریکی قونصل خانے کو دہشت گردانہ حملے کا نشانہ بنانے کے واقعے سے قبل ماضی میں بھی امریکی سفارتی مشنز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔
بائیں بازو کی انقلابی پیپلز لبریشن آرمی DHKP-C جس کے اراکین ترکی میں گزشتہ چند ہفتوں میں گرفتار ہونے والے کُرد جنگجوؤں میں شامل ہیں، نے 2013 ء میں انقرہ میں امریکی سفارت خانے میں ہونے والے خود کُش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اُس واقع میں ترک سکیورٹی کا ایک اہلکار ہلاک ہوا تھا۔
پیر کو امریکی قونصل خانے پر حملہ استنبول کے ایک پولیس اسٹیشن پر راتوں رات ہونے والے بم حملے کے چند گھنٹوں بعد ہوا۔ پولیس اسٹیشن پر حملے کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دس افراد زخمی ہوئے جن میں سات پولیس اہلکار تھے۔ اتازہ ترین اطلاعات کے مطابق دو حملہ آبھی ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ اس بم دھماکے کے نتیجے میں ایک تین منزلہ عمارت میں آگ لگ گئی اور عمارت منہدم ہو گئی۔
دہشت گردی کے یہ دونوں واقعات ایک ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب یورپ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ملک ترکی میں تشدد اور شورش غیر معمولی حد تک بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ ترکی کی سکیورٹی فورسز اور کردستان ورکرز پارٹی PKK کے باغیوں کے درمیان مسلح جھڑپوں میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے رہنماؤں نے ترکی پر الزام لگایا تھا کہ وہ کرد جنگجوؤں پر حملہ کرکے دولت اسلامیہ کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کرد جنگجوؤں جن میں پی کے کے بھی شامل ہے، نے شام و عراق میں شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔
ترکی بحران زدہ عرب ریاست شام کی صورتحال سے بھی براہ راست متاثر ہو رہا ہے۔ شام کے پناو گزینوں کی ایک بڑی تعداد ترکی کے سرحدی علاقوں میں داخل ہو چُکی ہے۔