1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں داعش کے خلاف چھاپے: ’دکھاوا‘ کہنا مہنگا پڑا

مقبول ملک30 جولائی 2015

ترکی میں کردوں کی مرکزی سیاسی جماعت کے ایک شریک رہنما کو ملک میں داعش کے خلاف سکیورٹی فورسز کے چھاپوں کو ’دکھاوا‘ کہنا مہنگا پڑا۔ اب ان کے خلاف گزشتہ برس کے خونریز مظاہروں کے سلسلے میں تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1G7fq
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan

انقرہ سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ترکی میں کردوں کی مرکزی سیاسی جماعت کا نام پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا HDP ہے، جس کے شریک رہنما صلاح الدین دیمیرتاس نے آج جمعرات تیس جولائی کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ترک سکیورٹی فورسز شام اور عراق میں وسیع تر علاقوں پر قابض عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے ترکی میں موجود شدت پسندوں یا حامیوں کے خلاف جن چھاپوں اور گرفتاریوں کے دعوے کر رہی ہیں، وہ محض ’دکھاوا‘ ہیں، کیونکہ اصل ہدف یہ جہادی نہیں بلکہ کرد عسکریت پسند ہیں۔

صلاح الدین دیمیرتاس نے اے ایف پی کے ساتھ اس انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ ترک ریاست اور کرد عسکریت پسندوں کے مابین قیام امن کا عمل اس وقت ’شدید بحران کا شکار‘ ہے اور اس بحران کی وجہ انقرہ حکومت کی کرد علیحدگی پسند باغیوں کے خلاف کارروائیاں ہیں۔ تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس امن عمل کی ناکامی بڑی غلطی ہو گی اور اسے کسی بھی طور ختم نہیں ہونا چاہیے۔

ترک حکام کے بقول انہوں نے ملک میں اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے ارکان اور حامیوں کے ساتھ ساتھ کرد باغیوں کے خلاف بھی جو کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں، ان کے دوران اب تک مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد مشتبہ عسکریت پسندوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

صلاح الدین دیمیرتاس کی پارٹی نے گزشتہ الیکشن میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی جماعت کے مقابلے میں کرد آبادی والے علاقوں میں ماضی کے مقابلے میں کافی کامیابی حاصل کی تھی۔ اس پس منظر میں دیمیرتاس نے کہا کہ ترک حکومت مبینہ طور پر اسلا مک اسٹیٹ کے خلاف چھاپوں اور فضائی حملوں کے نام پر جو کارروائیاں کر رہی ہے، اس کا اصل مقصد HDP کی انتخابی کامیابیوں کو ناکام بنانا ہے۔

Türkei Selahattin Demirtas Vorsitzender der HDP Partei
صلاح الدین دیمیرتاستصویر: Reuters/U. Bektas

اس کے برعکس ترک حکام کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اب تک دولت اسلامیہ کے ساتھ مبینہ رابطوں کی وجہ سے جن عسکریت پسندوں کو گرفتار کیا ہے، ان میں سے ایک کے مبینہ طور پر ترک کردوں کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ بھی رابطے تھے۔

دیمیرتاس کے آج کے انٹرویو کے بعد ایک بڑی پیش رفت انقرہ ہی سے ملنے والی یہ رپورٹیں بھی ہیں، جن کے مطابق ترک دفتر استغاثہ نے دیمیرتاس کے خلاف گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے خونریز مظاہروں کے سلسلے میں چھان بین شروع کر دی ہے۔

اناطولیہ نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ جنوب مشرقی ترکی کے شہر دیارباکر میں ریاستی دفتر استغاثہ نے کردوں کی جماعت ایچ ڈی پی کے رہنما کے خلاف جو تفتیش شروع کی ہے، اس کا تعلق پچھلے سال اکتوبر میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں کے سلسلے میں عام شہریوں کو ہتھیار اٹھانے اور تشدد پر اکسانے کے الزامات سے ہے۔ ان مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اناطولیہ کے مطابق اس چھان بین کے بعد اگر معاملہ باقاعدہ سماعت کے لیے کسی عدالت تک پہنچ گیا، تو دیمیرتاس کو ممکنہ طور پر 24 برس تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید