ترکی میں ٹوئٹر پر پابندی، تنقید کی زد میں
21 مارچ 2014ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اناطولیہ کے مطابق حکام نے ’تکنیکی طور پر ٹوئٹر تک رسائی بلاک‘ کر دی ہے کیونکہ ٹوئٹر نے ایسے متعدد لنکس کو ویب سائٹ سے نہیں ہٹایا تھا، جو عدالتی فیصلوں کے تحت غیرقانونی قرار دیے گئے تھے۔
ترک حکومت کی طرف سے ٹوئٹر کی بندش کو یورپی یونین کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کی کمشنر برائے ’ڈیجیٹل ایجنڈا‘ Neelie Kroes کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک ٹوئٹر پیغام کے مطابق ترکی میں اس سروس کی معطلی کے اقدام کو بے بنیاد، بے تکا اور بزدلانہ عمل قرار دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ترک عوام اور بین الاقوامی برادری اس عمل کو سنسر شپ کے طور پر دیکھتی ہے۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی ترک حکومت کی جانب سے ٹوئٹر کی بندش کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ اس حوالے سے ان کے ترجمان نے ٹوئٹر ہی کے ذریعے ایک پیغام جاری کیا ہے۔ میرکل کے ترجمان اشٹیفان زائبرٹ کی طرف سے جاری کردہ پیغام میں کہا گیا ہے، ’’ایک آزاد معاشرے میں یہ شہریوں کا حق ہوتا ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ کس طرح اطلاعات تک رسائی حاصل کریں، نہ کہ ریاست کا۔‘‘
ترکی میں ٹوئٹر کی بندش سے محض چند گھنٹے قبل ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے مائیکرو بلاگنگ کی اس ویب سائٹ کو بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ 30 مارچ کو ترکی میں ہونے والے مقامی انتخابات کے حوالے سے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ایردوآن کا کہنا تھا، ’’ہم ٹوئٹر کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بین الاقوامی برادری کیا کہتی ہے۔‘‘
ایردوآن کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر نے ’بعض لنکس‘ کو ہٹانے کے لیے ترک عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کیا، جس کی وجہ سے وزیراعظم نے اس معاملے پر احکامات دیے۔
دوسری طرف ترک صدر عبداللہ گُل نے عدالتی فیصلے کے تناظر میں کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر مکمل پابندی ناقابل قبول ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آج جمعہ 21 مارچ کو صدر عبداللہ گُل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے کہ کسی فرد واحد کی پرائیویسی متاثر ہوئی ہے تو ایسی صورت میں مذکورہ انٹرنیٹ پیجز کو بلاک کیا جانا چاہے نہ کہ پوری سروس معطل کر دی جائے۔ اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں گل نے امید ظاہر کی ہے کہ ٹوئٹر کی بندش زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھی جائے گی۔