ترکی میں کُرد نواز اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری
4 نومبر 2016ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی انادولو نے ملکی وزیر داخلہ کے حوالے سے بتایا کہ ملک کی تیسری سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے 11 ارکان پارلیمنٹ کو مختلف چھاپوں کے دوران حراست میں لے لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چار دیگر رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے گئے ہیں۔ یہ گرفتاریاں کرد آبادی کے خلاف انقرہ حکومت کے کریک ڈان کو وسعت دینے کے بعد کی گئیں۔کرد نواز پارٹی کے سربراہ صلاح الدین ڈیمیرٹاس کو پولیس نے آج جمعے کی صبح گھر پر نظربند کر دیا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی ترک پارلیمنٹ میں 59 نشستیں ہیں اور کردوں کی مرکزی نمائندہ جماعت ہے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پولیس کے چھاپوں اور گرفتاریوں کی لائیو ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری کی گئیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں یُکسیکڈا کو اپنی گرفتاری کے خلاف زبانی احتجاج کرتے بھی سنا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر ٹوئیٹر اور واٹس ایپ جیسی انٹرنیٹ سوشل میڈیا سروسز تک رسائی بند کر دی گئی اور صارفین کا کہنا تھا کہ وہ ان تک رسائی کے لیے VPN کا استعمال کر رہے ہیں جو اس طرح کی بندش کو بائی پاس کر دیتے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن اکثر HDP کو یہ کہہ کر نشانہ بناتے ہیں کہ اس جماعت کے کالعدم تنظیم کُردستان ورکرز پارٹی کے ساتھ تعلقات ہیں۔ تاہم HDP ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ یہ جماعت صدر کے الزامات کی وجہ سیاسی وجوہات کو قرار دیتی ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس جولائی سے اب تک اس جماعت سے تعلق رکھنے والے پانچ ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جبکہ ان میں سے ایک ہزار کو باقاعدہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے دو مرکزی رہنماؤں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد ترکی کے جنوبی مشرقی شہر دیاربکر میں ایک پولیس عمارت کے باہر ایک کار بم دھماکا بھی ہوا۔ جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور تیس کے قریب زخمی ہو گئے ہیں۔
دیاربکر کے گورنر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ بظاہر کار بم دھماکا معلوم ہوتا ہے جو ’’علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم‘‘ کی طرف سے کیا گیا۔ ترک حکومت یہ الفاظ کالعدم تنظیم کُردستان ورکرز پارٹی کے لیے استعمال کرتی ہے۔
دو مقامی افراد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دیاربکر کے علاقے بلگار میں ہونے والا یہ دھماکا دراصل ایک مِنی بس میں نصب بم کی وجہ سے ہوا۔