1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی نے غير ملکی جہاديوں کی ملک بدری شروع کر دی

11 نومبر 2019

ترکی نے مشرق وسطی سے ابھرنے والی دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کی صفوں ميں شامل ہو کر لڑنے والے غير ملکی جہاديوں کی ان کے آبائی ممالک واپسی شروع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Splc
Syrien angehörige des IS in kurdischer Gefangenschaft
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla

پير گيارہ نومبر کو سب سے پہلے ايک امريکی شہری کو روانہ کيا گيا جبکہ جرمنی اور ڈنمارک کے ايک ايک شہری کو بھی آج بروز پير ہی ملک بدر کيا جا رہا ہے۔ رواں ہفتے کے دوران متعدد يورپی نژاد جہاديوں کو ان کے آبائی ممالک روانہ کيا جائے گا۔ ترک وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتايا کہ امکاناً جمعرات کو سات جرمن شہريوں کو ملک بدر کيا جائے گا۔ اس کے علاوہ فرانس کے گيارہ اور آئرلينڈ کے دو جہاديوں کو ملک بدر کيا جانا ہے۔

پير کو جرمن وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی اس کی تصديق کر دی ہے کہ ترکی کی جانب سے سات جہادی اور دو بچے بھيجے جا رہے ہيں۔ البتہ ديگر ممالک کی جانب سے فی الحال اس تازہ پيش رفت پر کوئی رد عمل سامنے نہيں آيا ہے اور نہ ہی يہ واضح ہے کہ وطن واپسی پر ان جہاديوں کے ساتھ کيا ہو گا­؟

ترک صدر رجب طيب ايردوآن نے پچھلے ہفتے بتايا تھا کہ ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے کُل 1,149 جنگجو ترکی کے پاس زير حراست ہيں، جن ميں سے غير ملکی جہاديوں کی تعداد 737 ہے۔ ترک صدر کے بعد وزير داخلہ سليمان سوئيلو نے پچھلے ہفتے دھمکی دی تھی کہ چاہے ان کی شہريت منسوخ کر دی گئی ہو، ترکی غير ملکی جہاديوں کی ان کے ممالک واپسی شروع کر دے گا۔ يہی وجہ ہے کہ فی الحال يہ واضح نہيں کہ جہاديوں کی ان کے آبائی ممالک روانگی کس سمجھوتے يا کن انتظامات کے تحت جاری ہے۔ يہ بھی واضح نہيں کہ جن افراد کو ملک بدر کيا جا رہا ہے، آيا انہيں شام ميں ترک فوجی آپريشن ميں گرفتار کيا گيا تھا يا پھر يہ پہلے سے کردوں کی قيد ميں تھے۔

ترکی نے شام سے متصل اپنی سرحد پر نو اکتوبر سے فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ ترک افواج ’کُردش پيپلز پروٹيکشن يونٹ‘ (YPG) اور ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف برسرپيکار ہيں۔ دوسری جانب وائی پی جی سيريئن ڈيموکريٹک فورسز (SDF) کی قيادت کر رہی ہے اور يہ امريکی فورسز کے ساتھ ايک عرصے تک داعش کے خلاف متحرک رہی ہے۔ داعش کے تقريباً دس ہزار جنگجو (SDF) کے مراکز ميں قيد ہيں۔ ان ميں سے ايک بڑی تعداد غير ملکی جنگجوؤں کی ہے تاہم کئی يورپی ممالک جہاديوں، ان کی بيواؤں اور بچوں کو واپس لينے سے انکار کر چکے ہيں۔

ع س / ا ا، نيوز ايجنسياں