ترکی پر امریکی پابندیوں کا نفاذ
15 اکتوبر 2019امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک اقتصادیات کو کمزور کرنے والی پابندیوں کا نفاذ کر دیا ہے۔ ان میں ترکی کے ساتھ ایک سو بلین ڈالر کی تجارتی ڈیل پر بات چیت روکنے کے ساتھ ساتھ ترکی سے فولاد کی امریکا درآمد پر بھی محصولات میں پچاس فیصد کا اضافہ کر دیا ہے۔ ٹرمپ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ ترک اقتصادیات کو کمزور سے کمزور کر دیں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ امریکا نے ترکی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر شام میں جاری پیش قدمی کا سلسلہ روکتے ہوئے فائر بندی کرے اور کرد جنگجوؤں سے مذاکرات کرے۔ امریکی نائب صدر مائیک پینس نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے صاف صاف کہا ہے کہ ترکی فوری طور پر فوجی پیشقدمی کے سلسلے کو روک دے۔
امریکی صدر نے اپنے نائب صدر مائیک پینس اور قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن کو جلد ہی ترک دارالحکومت روانہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ امریکی نائب صدر پینس نے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے ترک ہم منصب سے بھی ٹیلی فون پر بات کی ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کے مطابق شام میں متعین تقریباً ایک ہزار امریکی فوجیوں کو شام سے مشرق وسطیٰ کے کسی اور ملک منتقل کر دیا جائے گا۔ امریکی وزارت دفاع نے اُس ملک کا نام نہیں بتایا ہے جہاں شام سے نکلنے والے فوجیوں کو تعینات کیا جائے گا۔
ٹرمپ کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی مجموعی صورت حال کی نگرانی کے لیے ہو گی۔ اس کے علاوہ یہ داعش کی سرگرمیوں پر بھی آنکھ رکھے گی تا کہ وہ سن 2014 کی طرح فعال نہ ہو سکے۔ پیر چودہ اکتوبر کو فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے اپنے امریکی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ ٹرمپ کے ساتھ گفتگو میں ماکروں نے واضح کیا کہ ایسے ضروری اقدامات بھی اٹھانے ہوں گے کہ دوبارہ سے جہادی تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ سرگرم اور متحرک نہ ہو سکے۔
شام میں امریکی صدر کے فیصلے کے مطابق ایک قلیل تعداد میں امریکی فوجی جنوبی شام میں واقع ایک فوجی اڈے پر رکھے جائیں گے۔ شام کی اردنی سرحد کے قریب طنف کے مقام پر امریکی فوجی اڈہ ہے۔ اندازوں کے مطابق امریکی فوج شام سے انخلا کے بعد اردن یا عراق میں تعینات کی جا سکتی ہے۔
ع ح ⁄ ع ت ( اے پی، روئٹرز)