ترکی کا مصر کے ساتھ سفارتی رابطے بحال کرنے کا عندیہ
13 مارچ 2021ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤس آؤلو کا کہنا ہے کہ انقرہ نے سن 2013کے بعد سے پہلی مرتبہ قاہرہ کے ساتھ سفارتی رابطے شروع کردیے ہیں۔
اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے معزول مصری صدرمحمد مرسی کی انقرہ کی جانب سے حمایت اور لیبیا میں جاری حالیہ جنگ کے معاملے پر اس کے موقف کی وجہ سے ترکی اور مصرکے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق مصری انٹیلی جنس ایجنسی کے ذرائع نے بتایا کہ ترکی نے تعلقات کو بحال کرنے کے لیے بات چیت کی تجویز پیش کی ہے تاہم یہ گفتگو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
ترکی کی خبر رساں ایجنسی ٹی آر ٹی کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے استنبول میں ایک بیان میں کہا کہ مصر اور ترکی کے عوام کو ایک دوسر ے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مصر کے ساتھ ہمارے تعاون کا عمل جاری ہے اور ہم مصر کے ساتھ اس عمل کو مزید مضبوط طریقے سے جاری رکھنا چاہیں گے۔
ایردوآن کا مزید کہنا تھا کہ انٹیلی جنس، سفارتی اور سیاسی مذاکرات کے نتائج برآمد ہونے کے بعد ہم اسے اعلیٰ سطح پر لے جائیں گے۔
بات چیت غیرمشروط
ترکی کی خبر رساں ایجنسی انادولو نے وزیرخارجہ چاؤس آؤلو کے حوالے سے کہا کہ مصر اور ترکی باہمی تعلقات کو ”کسی پیشگی شرط کے بغیر مرحلہ وار“ طریقے سے بحال کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا”اس کے لیے مذاکرات ایک مخصوص لائحہ عمل اور روڈ میپ کے تحت ہورہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں۔“
مصر اور ترکی میں تعلقات کیوں منقطع ہوئے تھے؟
نومبر 2013میں مصر اور ترکی نے ایک دوسرے کے سفیروں کو ملک سے بے دخل کر دیا تھا اور اپنے سفارتی تعلقات کو کم کرکے ناظم الامور کی سطح پر لے آئے تھے۔
مصری وزارت خارجہ کے ترجمان نے اُس وقت کہا تھا کہ انقرہ ’رائے عامہ کو متاثر کرنے‘ کی کوشش کررہا ہے اور 'ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرنے والی تنظیمو ں کی میٹنگوں کی مدد‘ کررہا ہے۔
اس وقت مصر کے نئے صدر آرمی جنرل عبدالفتاح السیسی نے جمہوری طور پر منتخب صدر محمد مرسی، جن کے ترکی کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، کو عہدے سے برطرف کردیا تھا۔
مصر اور ترکی کے درمیان لیبیا کے معاملے پر بھی تنازعہ رہا ہے۔ انقرہ اور قاہرہ لیبیا میں باہم متصادم مخالف فریقین کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
ترکی کے موقف میں تبدیلی کیوں آئی
سمجھا جاتا ہے کہ امریکا کی جانب سے ترکی پر حالیہ پابندیوں کی وجہ سے انقرہ سخت دباؤ میں ہے اس لیے وہ عرب ملکوں کے ساتھ اپنے کشیدہ سفارتی تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چاؤس آؤلو نے جمعے کے روز کہا کہ ترکی کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کسی بھی ’مثبت اقدام‘ کا جواب دینے کا خواہش مند ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ”ایسی کوئی وجہ نہیں کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلقات درست نہ ہوں۔ اگر وہ مثبت قدم اٹھاتے ہیں تو ہم بھی مثبت قدم اٹھائیں گے۔یہی بات متحدہ عرب امارات پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ ہم کسی سے جھگڑا کرنا نہیں چاہتے۔“
صحافی جمال خاشقجی کے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں قتل کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے جبکہ لیبیا کی جنگ میں متحدہ عرب امارات اور ترکی ایک دوسرے پر علاقائی استحکام کو تباہ کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔
ج ا/ ع ت (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)