ترک وزیر اعظم مصر اور تیونس کے بعد لیبیا میں
16 ستمبر 2011لیبیا میں قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی حکومت کو مسلسل عالمی لیڈروں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوان جب طرابلس کے ہوائی اڈے پر پہنچے تو ان کا استقبال قومی عبوری کونسل کے لیڈر مصطفیٰ عبدالجلیل نے کیا۔ اپنے قیام کے دوران ترک وزیر اعظم اپنے ملک کے معاشی معاہدوں کے مستقبل پر بات چیت کریں گے۔ لیبیا ایردوان کے موجودہ دورے کی آخری منزل ہے۔
ایردوان مصر اور تیونس کا دورہ مکمل کرتے ہوئے لیبیا پہنچے ہیں۔ ترک وزیر اعظم سے قبل فرانس کے صدر نکولا سارکوزی، برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور امریکہ کے نائب وزیر خارجہ برائے مشرقی امور جیفری فیلٹ مین بھی قومی عبوری کونسل کے لیڈروں سے ملاقات کے لیے طرابلس کا دورہ مکمل کر چکے ہیں۔
گزشتہ روز مصر کی اخوان المسلمون تحریک کی سیاسی جماعت نے ترک وزیر اعظم کو متنبہ کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے سے باز رہیں۔
فرانس اور برطانیہ نے قذافی کے خلاف باغیوں کی کوششوں کی کھل کر حمایت کی تھی اور اب امکاناً ان ملکوں کو انتہائی بڑے کاروباری سودے ملنے کی توقع کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ترکی پہلے سے لیبیا کے ساتھ پندرہ ارب ڈالر کے معاہدے رکھتا ہے اور خانہ جنگی کے دوران وہ باغیوں کی حمایت میں پس و پیش بھی کر رہا تھا لیکن قومی عبوری کونسل کی قیادت ترک وزیر اعظم ایردوان کے بین الاقوامی کردار سے متاثر دکھائی دیتی ہے۔
ترک وزیر اعظم اپنے مصر، تیونس اور لیبیا کے دوروں کے دوران اپنے ملک میں اسلام اور جمہوریت کے ادغام کے ماڈل کو ایک کامیاب انداز حکومت کے طور پر پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ لیبیا کی قومی عبوری کونسل پہلے ہی ترکی کے بین الاقوامی کردار کی معترف ہے۔ کونسل کے سینئر رہنما اور متحدہ عرب امارات میں سفیر عارف النائید کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ترک حکومت کی کوششیں بجا طور پر عالمی سطح پر سراہی جا رہی ہیں کیونکہ اس کا کردار نہایت واضح ہے۔
رجب طیب ایردوان نے جمعرات کے روز تیونس کے وزیر اعظم الباجی قائد اسبیسی سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں اور ایک مسلمان ایک ریاست پر کامیاب انداز میں حکومت کر سکتا ہے۔ ایردوان کے مطابق تیونس میں انتخابی عمل کی تکمیل سے دنیا کو معلوم ہو گا کہ جمہوریت اور اسلام ایک ساتھ سفر کر سکتے ہیں۔ تیونس کے سیاستدان راشد غنوشی کی سیاسی جماعت خصوصیت سے ایردوان سے بہت متاثر دکھائی دیتی ہے۔ معزول صدر زین العابدین بن علی کے دور میں غنوشی کی سیاسی جماعت اور ورکروں کو حکومتی پابندیوں کا سامنا رہا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق راشد غنوشی کی سیاسی جماعت النھضۃ کے لیے ایردوان کی ڈھکی چھپی حمایت اس کے سیاسی مستقبل کے لیے خوشگوار ثابت ہو سکتی ہے ۔ تیونس میں ترک وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ ترکی میں ننانوے فیصد مسلمان آباد ہیں لیکن وہ ایک سیکولر جمہوریہ ہے اور وہاں تمام مذاہب برابر ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: امجد علی